tag:blogger.com,1999:blog-25208926641712951072024-02-19T10:42:46.064+05:00Stalemate سٹیل میٹدماغ پر لگی نادیدہ زنجیروں سے آزاد ہونے کے بعد دنیا بہت مختلف دکھائی دیتی ہےUnknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.comBlogger15125tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-32693950293726180712014-11-02T22:24:00.001+05:002014-11-02T22:24:25.012+05:00پابندی مسئلے کا حل نہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہر مرتبہ کی طرح اِس مرتبہ بھی محرم آتے ہی کچھ مخصوص موضوعات سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں زیرِ بحث نظر آ رہے ہیں- یہ موضوعات ہیں دہشتگردی اور عاشورہ کے جلوسوں کے حوالے سے- کچھ لوگوں کا خیال ہے امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہر قسم کے جلوسوں پر پابندی ہونی چاہیے تاہم کچھ کا خیال ہے سیاسی نہیں صرف مذہبی عبادات کو عبادت گاہوں تک محدود کیا جائے- اِس رائے کے حال لوگ اکثر فرقہ پرست قسم کے اور اکثر سیکولر بھی ہوتے ہیں- زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کیسا سیکولرزم ہے جو عبادات کی آزادی کی بات کرنے کی بجائے عبادات پر پابندی لگانا چاہتا ہے-</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جلوسوں پر پابندی یا عبادت گاہوں تک محدود کرنے کے لئے دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں اول امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اِس طرح سے دہشتگردی کو روکا جا سکتا ہے- دوئم جلوسوں کی وجہ سے سڑکیں، ٹریفک اور کاروبار بند کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے شہریوں کو پریشانی ہوتی ہے- اگر ہم اول الذکر وجہ کا جائزہ لیں تو ہمیں پھر فوجی چھاونیوں، سکولوں، ہسپتالوں، مزارات، مساجد کو بھی بند کر دینا چاہیے اور کرکٹ پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ بھی محفوظ نہیں مذکورہ بالا تمام جگہوں پر حملے ہو چکے اور سری لنکن کرکٹ ٹیم کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا- اِس کے ساتھ ہمیں سیاست پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ بے شمار سیاستدانوں پر بھی حملے ہو چکے اور کئی اُس میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- ہمیں عدالتوں پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ کئی وکلا اور جج صاحبان پر بھی حملے ہو چکے جسٹس مقبول باقر کا واقعہ تو زیادہ پرانہ نہیں جس میں وہ خوشقسمتی سے بال بال بچے تھے-</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
موخر الذکر وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ بلکل حقیقت پر مبنی بات ہے- جلوسوں کی وجہ سے واقعی ٹریفک سڑکیں اور کاروبار بند کرنا پڑتا ہے مگر صرف بڑے شہروں میں چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات میں یہ سب کیے بغیر بھی جلوس آرام سے گزر جاتا ہے- سوال یہ ہے کہ عاشورہ اور ربیع الاول کے جلوس دُنیا کے 255 میں سے کم از کم 175 ممالک میں نکالے جاتے ہیں- تو آخر صرف 1 ملک پاکستان کے چند شہروں میں ہی کیوں کاروبارِ زندگی معطل کرنا پڑتا ہے؟ اُس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ ہمارے ملک میں لشکرِ جھنگوی سپاہ صحابہ ٹائپ فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن سے جلوسوں کو خطرہ ہوتا ہے- جب ملک میں دہشتگردی نہیں تھی تب بغیر سڑکیں بند کیے جلوس آرام سے گزر جاتے تھے اور مستقبل میں بھی جب دہشتگردی نہیں ہوگی تب بھی جلوسوں کے لئے کوئی سڑکیں اور کاروبار بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی- ہمیں مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی بات کرنی چاہیے حکومتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ دہشتگردی پر قابو پائیں بجائے اِس کے کہ شہریوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی بات کریں-</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جہاں تک عبادات کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی بات ہے تو اِس سے بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا- احمدی، بوہری، ہندو اور عیسائی تو کوئی جلوس نہیں نکالتے مگر اُن کی عبادت گاہوں پر بھی حملے ہو چکے ہیں- یہ حملے نہ تو امریکی جنگ کا نتیجہ ہیں نہ ڈرون کا ردِ عمل ہیں نہ جلوسوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں بلکہ یہ حملے اُس انتہاء پسند سوچ کا نتیجہ ہیں جو ہمارے ملک میں موجود ہے جو اپنے سوا سب کو واجب القتل سمجھتی ہے- یہ سوچ نازی فاشزم سے کافی مماثلت رکھتی ہے جو صرف ایک مخصوص گروہ کو زندہ رہنے کا حق دینا چاہتی تھی- پاکستان کے اعتدال پسند شہریوں کو متحد ہو کر اِس فاشسٹ سوچ کا نہ صرف مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ اِس کو شکست بھی دینی ہوگی ورنہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں ہے-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-55116973204194289522014-05-21T16:29:00.003+05:002014-05-21T16:45:00.816+05:00پاکستان میں بلاسفیمی کی ستم ظریفی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مندرجہ ذیل تحریر علی سیٹھی کے
آرٹیکل کا ترجمہ ہے جس کو ایکسپریس ٹریبیون نے سینسر کر دیا- جن چیزوں پر
ریاست پابندی لگائے اُن کو ضرور پڑھنا چاہیے کیونکہ اُن میں کچھ تو ایسا ہے
جو اربابِ اختیار نہیں چاہتے کہ آپ کو پتا لگے- اوریجنل تحریر <a href="http://www.nytimes.com/2014/05/21/opinion/pakistans-tyranny-of-blasphemy.html?_r=1" target="_blank">یہاں</a> پڑھی جا سکتی ہے- اُردو پڑھنے والے قارئین کی سہولت کے لئے خاکسار نے آرٹیکل کا اُردو ترجمہ کر دیا ہے-<br />
<br />
<br />
<b>پاکستان میں بلاسفیمی کی ستم ظریفی</b><br />
<br />
مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میری زندگی بہت ہی لگی بندھی تھی-<br />
مذکورہ
بالا جملہ جنید حفیظ نے کہا جو جنوبی پاکستان سے تعلق رکھنے والا نوجوان
شاعر اور فل برائٹ سکالر تھا اُس نے2011 میں ایک ریڈیو ہوسٹ کو انٹرویو
دیتے ہوئے بتایا کہ اُس نے طب کی تعلیم ادبی زندگی گزارنے کے لئے کیوں ترک
کی- آج وہ جیل میں ہے ایک بلاسفیمی کے الزام کی وجہ سے جس کی سزا موت ہے،
اور اُس وکیل کی موت کی وجہ سے غمزدہ ہے جو اُس کا دفاع کرنے وجہ سے قتل کر
دیا گیا-<br />
اپنی گرفتاری سے قبل جنید بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان
کے شعبہ انگریزی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا جو اُس شہر کے قریب
ہے جہاں وہ پلا بڑھا- اپنی سحر انگیز شخصیت اور روشن خیالی کی وجہ سے جہاں
اُس نے اپنے شاگردوں کو گرویدہ بنا لیا تھا وہیں دیگر اُساتذہ کی حاسدانہ
نگاہوں کا مرکز بھی بن گیا تھا-<br />
2013 کے ایک دن ایک طالب علم نے جو سخت
گیر جماعتِ اسلامی کی ذیلی شاخ اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق رکھتا تھا جنید
حفیظ پر فیس بک پر پیغمبرِ اسلام کی توہین کا الزام لگایا- طالب علم کے پاس
کوئی ثبوت نہ تھا، مگر کسی ثبوت کی ضرورت بھی نہ تھی-<br />
سخت گیر طلباء نے
جلد ہی احتجاج شروع کر دیا جس میں حفیظ کے لئے پھانسی کا مطالبہ کیا گیا-
یونی ورسٹی انتظامیہ پیچھے ہٹ گئی- پولیس نے حفیظ کے خلاف بلاسفیمی کا
مقدمہ درج کر لیا- اُنہوں نے سائبر کرائم کے ماہرین سے الزامات کی تحقیقات
کروانے کی بجائے مدرسے کی جانب سے جاری کیے گئے فتوے پر انحصار کیا-</div>
<table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgBs6l9SHRNh72MsR4vISucO_DNfAGtTvpIzIBistIxU4P7x3Rc31OYV3TOsaIEeE1qtoVdwAB3CdU3VE9elbTilMECkneRhUSGPbUaixLv1j905IRs9m5wUR0rLCz5bcxIPlW7Q_EwUX7D/s1600/21sethi-articleLarge.jpg" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img alt="" border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgBs6l9SHRNh72MsR4vISucO_DNfAGtTvpIzIBistIxU4P7x3Rc31OYV3TOsaIEeE1qtoVdwAB3CdU3VE9elbTilMECkneRhUSGPbUaixLv1j905IRs9m5wUR0rLCz5bcxIPlW7Q_EwUX7D/s1600/21sethi-articleLarge.jpg" height="320" title="" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Jacob Stead</td></tr>
</tbody></table>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
کئی
ماہ تک حفیط کے والد وکیل ڈھونڈتے رہے- آخر کار اُنہوں نے بذریعہ پٹیشن 53
سالہ راشد رحمان کی خدمات حاصل کیں جو ہیومن رائٹس کمیشن ملتان کے سپیشل
کو آرڈینیٹر تھے- ایک قانونی ماہر جسکا بحیثیت سرگرم کارکن 20 سالہ تجربہ
تھا، رحمان مایوس کُن کیسز لینے کے حوالے سے جانے جاتے تھے- خطرات کے
باوجود وہ حفیظ کا کیس لینے پر رضامند ہوگئے- توہینِ رسالت کے ملزم کا کیس
لڑنے کے حوالے سے رحمان نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ یہ موت کے منہ میں جانے
جیسا ہے-<br />
موت کا یہ دہانہ 1980 سے کھلا ہوا ہے جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد
ضیاءالحق نے چند استعماری قوانین میں ترمیم کرکے "کسی بھی شخص کے" مذہب کی
توہین کو جرم قرار دیا- اصل قوانین پدرشاہی برطانوی حکومت نے انیسویں صدی
میں متعارف کروائے تھے تاکہ اُن کی کثیر المذہب رعایا باہم دست و گریباں نہ
ہوں- وہ قوانین کسی خاص مذہب پر لاگو نہ ہوتے تھے اور جرمانہ یا زیادہ سے
زیادہ 2 سال قید کی سزا دیتے تھے-<br />
<br />
جنرل ضیاء کی ترامیم نے ان قوانین
کو مخصوص کر دیا اور دفعات کو اسلام کے ایک سخت گیر سنی مسلک کے لئے موزوں
بنا دیا- قرآن کی بے حرمتی، پیغمبر اسلام یا اُن کے اصحاب کے بارے میں
کوئی بھی نازیبا جملہ جرم ٹھہرا- جو کہ پاکستان کی شیعہ اقلیت پر ایک حملہ
تھا جن میں پیغمبرِ اسلام کی وفات کے بعد ہونے والی جانیشی کی جدوجہد کے
نتائج کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے- اِس کے علاوہ کلعدم قرار دیے گئے
احمدی فرقے کے کسی بھی فرد کی جانب سے خود کو مسلمان کہنے کی کوشش جرم
ٹھہرائی گئی- سزاؤں میں اضافہ کر دیا گیا، گستاخ کو سزائے موت یا عمر قید
دی جاسکتی تھی-<br />
جنرل ضیاء 1988 میں فضائی حادثے میں ہلاک ہو گیا مگر اُس
کی میراث جوں کی توں ہے- جس میں دینی شخصیات کو ہر شعبہ زندگی میں اختیار
دینا ہے- مولویوں سے لے کر ٹیلی ویژن مبلغین، شدت پسند اساتذہ اور شریعہ
کورٹ کے ججوں تک سب کو اس مقدس مہم جوئی میں تقویت ایک قانون نے پہنچائی جو
آج تک ناقابلِ اصلاح حد تک ضیائی ہے-<br />
بلاسفیمی قوانین اس سب کا حصّہ
ہیں- دہائیوں تک یہ شاذ و نادر ہی استعمال ہوتے تھے اور اس نوعیت کے اِکا
دُکا واقعات پیش آئے مگر جنرل ضیاء کی ترامیم نے سیلاب کے آگے بندھا بند
کھول دیا- ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق تب سے اب تک ہزار سے زائد کیسز درج
ہو چکے- پچھلے ہی ہفتہ پنجاب پولیس نے ایک سنی انتہاء پسند کی اشتعال
انگیزی پر 68 وکلاء کے خلاف بلاسفیمی کا مقدمہ درج کر لیا-<br />
بلاسفیمی
قوانین کوئی بھی بداندیش اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے- کوئی ناراض
رشتے دار، کوئی حاسد ساتھی، کوئی پڑوسی جس کی نظر آپ کی جائیداد پر ہو-
مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ پیشہ ور ملّاؤں کو ہوا جو ان کا استعمال کرکے
ریاست اور معاشرے دونوں کو دھونس دینے میں مہارت رکھتے ہیں-<br />
مجھے اس بات
کا ادراک اگست 2009 میں ہوا جب میں نے پاکستان کے قلب میں واقع ایک چھوٹے
شہر گوجرہ کی سوختہ عیسائی بستی کا دورہ کیا- ایک مسلمان کسان نے افواہ
اُڑائی کے عیسائیوں نے قرآن کی توہین کی ہے جو کے ملّاؤں کی جانب سے کیے
گئے مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے جذباتی اعلانات کے بعد فساد کی ابتر صورتحال
میں تبدیل ہو گئی- جب پولیس نے ملّاؤں کو روکنے کی کوشش کی اُنہوں نے
بلاسفیمی قوانین کا ذکر کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکایا کہ
ہجوم کا رُخ گستاخوں کو بچانے کی وجہ سے اربابِ اختیار کی طرف کر دیا جائے
گا- 60 کے قریب عیسائیوں کے گھر نذرِ آتش کیے گئے اور 8 عیسائی مارے گئے-<br /><br />
ملّا
ہمیں بتاتے ہیں کے کوئی بھی مسلمان مشتعل ہو کر متشدد ہو سکتا ہے جب اُس
کے مذہب کی توہین کی جائے- مگر حقیقت جیسا کے سرکاری رپورٹ سے ظاہر ہے کافی
متضاد اور افسوس ناک ہے- ایک بلاسفیمی کا الزام جب کوئی مذہبی کارکن
اٹھائے تو اس سے ان گنت مفادات حاصل کیے جا سکتے ہیں، چھوٹی ذاتی ضروریات
سے لے کر بڑے سیاسی مقاصد تک اور ایک مقدس سب کے لئے کھلی چھوٹ والا ماحول
بنایا جا سکتا ہے- گوجرہ بلوائیوں میں علاقائی حزبِ اختلاف سیاستدان کے
حلقے کے افراد، اور مسلح کلعدم سنی تنظیم لشکرِ جھنگوی کے لوگ ملوث تھے
اور آس پاس کے علاقوں کے کسان اور دھاڑی دار مزدور بھی لوٹ مار میں شامل
ہو گئے-<br />
پاکستان کے اسلامسٹ گروپس کو بلاسفیمی قوانین کی اصلاح میں
برائے نام دلچسپی ہے- اُنہوں نے بلکہ ان قوانین کا دائرہ کار بڑھا کر اِن
قوانین پر تنقید کو بھی اس میں شامل کر دیا ہے- اس مقصد کے حصول کے لئے
اختلاف رکھنے والی مشہور شخصیات کو نشانہ بنایا گیا جن میں گورنر پنجاب
سلمان تاثیر، وفاقی وزیر برائے اقلیت شہباز بھٹی شامل ہیں جن کو 2011 میں
قتل کر دیا گیا-<br />
اور صرف دو ہفتے قبل راشد رحمان کا قتل ہوا-<br />
اُنہوں
نے مافیا کی طرز پر اُس کے گرد گھیرا تنگ کیا، ہر جانب سے- سب سے پہلے
اُردو اخبارات میں مبم پیغامات کے ذریعے خبردار کیا گیا جس میں ایک وکیل کا
ذکر کیا گیا جو "خود کو نقصان" پہنچانے پر تُلا تھا- پھر ملتان میں ایک
پریس کانفرنس کی گئی جس میں سخت گیر ملّاؤں کے ایک گروہ نے رحمان پر حفیظ
کے کیس کو بین الاقوامی مسئلہ بنانے کا الزام لگایا- اپریل میں حفیظ کے
مقدمے کے دوران استغاشہ کے تین وکلاء نے جج کے سامنے رحمان کو کہا کے اگلی
پیشی تک وہ "باقی نہیں رہے گا"-<br />
رحمان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھیوں
نے حکومت سے سیکورٹی مہیا کرنے کی اپیل کی گزارش کی تھی- اُن کو کوئی مدد
نہ ملی- حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ماضی میں بھی شدت پسند گروہ جیسے کہ
تحریکِ طالبان پاکستان کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے رعایت دے چکی ہے-<br />
7
مئی کی رات دو نوجوان ڈسٹرکٹ کورٹ ملتان کے قریب رحمان کے دفتر میں داخل
ہوئے اور اُس کو اُس کے ساتھیوں کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا اور رات
کی تاریکی میں فرار ہو گئے- اگلی صبح تقریباً تمام اخبارات نے اُن کا ذکر
"نامعلوم افراد" کہہ کر کیا- مگر جو چیز رحمان کے قتل کا محرک بنی اُس کی
نشاندہی کی جا سکتی ہے: وہ پُرتشدد عدم برداشت ہے جس میں ریاست کی مجرمانہ
اعانت شامل ہے-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-77686967579133005242014-05-15T21:46:00.001+05:002014-05-15T21:47:36.661+05:00فیس بک کا مستقبل<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کچھ عرصہ پہلے ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر (یونیورسٹی اور پروفیسر دونوں کا نام یاد نہیں) کی جانب سے فیس بک کے زوال کے متعلق ایک مضمون لکھا گیا تھا- مضمون کا بنیادی مقدمہ کچھ یوں تھا کے فیس بک پر ایکٹیو یوزرز کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے اور فلاں سال تک فیس بک قصہ پارینہ ہو چکا ہوگا- فیس بک انتظامیہ اور جنرل پبلک دونوں نے ہی اُس کو دیوانے کی بڑ سمجھا اور سنجیدہ نہ لیا- فیس بک کے کچھ ملازمین جو بلاگنگ سے وابسطہ ہیں اُنہوں نے جواب میں استہزائیہ مضامین لکھے اور کوئی خاطر خواہ سنجیدہ جواب نہ دیا-<br />
<br />
میں نے اُس مضمون میں جو پیش گوئی والا عنصر تھا اُس کو سنجیدہ نہیں لیا تھا کیونکہ مستقبل کی پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت نہیں ہوتی مگر مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فیس بک سوشل میڈیا کی آخری منزل نہیں ہے- جو لوگ عرصے سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں سوشل میڈیا کی سب سے پہلی منزل یاہو اور ایم ایس این گروپس تھے، پھر اورکٹ نامی ایک سائٹ آئی، ساتھ میں Hi5 بھی آیا، اِن دونوں کے بعد مائی سپیس آیا اور پھر فیس بک اور ٹویٹر کا زمانہ آیا- ایک کے بعد ایک سائٹ تاریخ کا حصّہ بنتی گئی اور اُس کی جگہ نئی سائٹ لیتی گئی-<br />
<br />
پچھلے کچھ عرصے سے فیس بک نے کئی ایسی تبدیلیاں کی ہیں جو فیس بک کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مثلاً سب سے پہلے پیج کی reach کم کی یعنیٰ آپ اگر اپنے پیج پر کوئی پوسٹ لگائیں تو وہ 100 فیصد پیج ممبران تک نہیں پہنچے گی، سو فیصد ممبران تک پوسٹ کی رسائی کے لئے آپ کو پیسے دینے پڑیں گے- ابتداء میں پوسٹ کی مفت پہنچ 60 فیصد ممبران تک تھی آہستہ آہستہ پوسٹ کی پہنچ کم ہوتی گئی اور اب میرا خیال ہے کسی پیج کی پوسٹ بمشکل بیس یا تیس فیصد ممبران تک ہی پہنچ پاتی ہے- (بیشک وہ پوسٹ کی نوٹیفیکیشن آن ہی کیوں نہ رکھیں)- یہی وجہ ہے بیشتر پیج ایڈمنز کا اب کچھ دل نہیں کرتا اپنے پیج پر پوسٹ کرنے کو سوائے اُن پیجز کے جن پر بیس تیس ہزار یا لاکھوں ممبران ہوں- اگر فیس بک نے اپنا قبلہ دُرست نہ کیا تو عین ممکن ہے اِن کا بھی انجام مائی سپیس یا اورکٹ والا ہی ہو-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-59110000888453739672014-05-14T16:28:00.000+05:002014-05-14T16:28:10.390+05:00جلسوں اور دھرنوں کی سیاست<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زمانہ طالب علمی میں ایک بار یونیورسٹی کی طرف سے ایک ٹاک شو میں جانے کا اتفاق ہوا- ٹاک شو سے آپ شاید کوئی سیاسی ٹاک شو سمجھ رہے ہوں جس میں تین سیاستدان بیٹھے ہوتے ہیں ایک اینکر کے سامنے مگر یہ دوسرے فارمیٹ کا شو تھا- خبرناک یا ساحر لودھی شو جیسا، جس میں اینکر کے سامنے ایک یا دو مہمان ہوتے ہیں اور سامنے کچھ آڈینس بیٹھی ہوتی ہے- ہوا کچھ یوں تھا کہ ہماری کلاس میں ایک خاتون آئیں جو کے اُس شو کی کوآرڈینیٹر تھیں، اُنہوں نے پوچھا ٹاک شو میں کون کون جانا چاہتا ہے؟ کئی طالب علموں نے حامی بھر لی اُنہوں نے موضوع بھی بتا دیا کے فلاں موضوع پر ہوگا اور یہ بھی کہا آپ کی پارٹیسیپیشن بھی ہوگی آپ لوگ مہمانوں سے جو کے اپنے شعبے کے ماہرین ہونگے سوال بھی پوچھ سکیں گے- شو لائیو نہیں تھا اگلے دن اتوار تھا صبح کے وقت اُس شو کی ریکارڈنگ ہونی تھی مجھ سمیت کئی طالب علم وقت پر آٹھ بجے یونیورسٹی پہنچ گئے جہاں سے اُن خاتون نے پک کرنے کے لئے گاڑی بھیجنی تھی- کچھ دیر بعد گاڑی آگئی اور ہم سب سٹوڈیو پہنچ گئے- وہاں جا کر ہم آڈینس میں بیٹھ گئے- شو کے ہوسٹ موصوف تاخیر سے پہنچے ریکارڈنگ کے لئے خیر جیسے تیسے ریکارڈنگ شروع ہوئی-</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
آڈینس میں میرے برابر میں ایک خاتون بیٹھی تھیں جو اپنی بیٹی کے ساتھ آئی ہوئی تھیں- اُنہوں نے مجھ سے پوچھا آپ پڑھتے ہیں، میں نے کہا جی میں پڑھتا ہوں، چونکہ میں خود یونیورسٹی سے گیا تھا تو میں سمجھا شاید وہ بھی کسی دوسری یونی ورسٹی کی ٹیچر ہونگی، میں نے اُن سے پوچھا آپ کہاں پڑھاتی ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہیں بھی نہیں، میں نے کہا اچھا آپ اپنی بیٹی کے ساتھ آئی ہونگی یہ کس یونیورسٹی میں ہیں؟ اُن کا جواب تھا یہ ہاوس وائف ہے پڑھتی نہیں ہے- اب مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ میں سمجھ بیٹھا تھا کے آڈینس میں باقی لوگ بھی ہماری طرح یونیورسٹیوں سے ہی لائے گئے ہیں- یہ حیرت ریکارڈنگ ختم ہونے تک دور ہو گئی کیونکہ جب ریکارڈنگ ختم ہوئی تو وہ خاتون برابر والے سٹوڈیو میں کسی اور پروگرام کی ریکارڈنگ میں چلی گئی تھیں- تب مجھ پر یہ راز کھلا آڈینس میں تمام لوگ یونیورسٹیوں کے نہیں تھے آدھے تھے اور باقی آدھے چھوٹے موٹے ایکٹرز تھے جن کو عام طور پر آج کل ہم جرائم والے پروگرامز کی re-enactment میں کام کرتے دیکھتے ہیں یا پھر مایا خان کے مارننگ شو میں پرفارم کرتے دیکھتے ہیں- پروگرام میں شرکت کی جہاں تک بات تھی تو وہ غلط نکلی کیونکہ ٹاک شو کی اسسٹنٹ پروڈیوسر نے آ کر پہلے ہی اُن لوگوں کی نشان دہی کر دی تھی جن کو مائیک دیا جانا تھا اور جنہوں نے سوال کرنے تھے- پہلے سے طے شدہ لوگ اور طے شدہ سوالات- اب آپ یقیناً جان چکے ہوں گے ٹی وی ٹاک شوز میں جو ہمیں آڈینس بیٹھی نظر آتی ہے وہ کون ہوتے ہیں اور کہاں سے لائے جاتے ہیں، کچھ میرے جیسے ہوتے ہیں جو کسی یونیورسٹی، کالج سے لائے جاتے ہیں اور وہ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اتوار کی نیند قربان کرتے ہیں اور باقی معاوضہ لینے والے اداکار ہوتے ہیں-<br />
<br />
اس تمہید کے بعد ہم آتے ہیں آج کل ہونے والی سیاسی جلسوں اور احتجاجی دھرنوں پر، جس میں کامیابی کا معیار جلسے میں شریک افراد کی تعداد کو سمجھا جاتا ہے- جب کہ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں اگر کوئی جماعت لوگوں کی بڑی تعداد اکھٹی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو یہ اُنکی سیاسی کامیابی کی ضمانت نہیں- کسی جماعت کے عوام میں مقبول ہونے کی پہلے دلیل یہ ہوگی کہ لوگ اُن کے جلسے کا سنتے ہی خود ہی گھروں سے نکل پڑیں، اُن کو گھروں سے لانے کے لئے اگر گاڑیاں بھیجنی پڑیں باقائدہ مہم چلانی پڑے تو یہ جلسہ کامیاب نہیں بلکہ اِس کو کامیاب بنانے کی کوششیں کی جارہی ہونگی- لوگوں کی ایک معقول تعداد تو ٹی وی ٹاک شوز والے بھی اکٹھی کر لیتے ہیں مگر کیا مذکورہ بالا شو کو کامیاب سمجھا جائے؟ ہو سکتا ہے اُس شو کی ریٹنگ بڑی زبردست ہو مگر کیا جو اُس کا حقیقی مقصد تھا وہ پورا ہوا؟ میرا خیال ہے نہیں- اسی طرح جعلی جلسوں سے سیاسی جماعتوں کو ریٹنگ بھی بڑی اچھی مل جاتی ہوگی مگر اُن جلسوں کا جو حقیقی مقصد ہوتا ہے الیکشن میں ووٹ حاصل کرنا وہ پورا نہیں ہو پاتا- پاکستان میں جلسے جلوسوں کے لئے بندے فراہم کرنا ایک کاروبار بن چکا ہے آپ کو ہر شہر میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو جلسے جلوسوں کے لئے پیسے لے کر بندے فراہم کرتے ہیں- کچھ عرصے پہلے اس کاروبار پر ایک چینل نے ڈاکومنٹری بھی بنائی تھی- جب ایسی صورتحال ہو تو میرا نہیں خیال سیاسی کامیابی کا پیمانہ جلسے اور دھرنے ہو سکتے ہیں-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-54477896037443287182014-05-07T22:25:00.004+05:002014-05-14T16:29:13.247+05:00طالب علم اور شہزادے کے ہاتھی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اسکول کی گھنٹی جیسی ہی بجی سارے طالب علم کلاسوں سے باہر نکل کر گھروں کو جانے لگے مگر ایک طالب علم بضد ہو کر اسکول کی راہداری میں ہی بیٹھ گیا اور کسی صورت گھر جانے کو تیار نہ ہو- اُساتذہ کے پوچھنے پر طالب علم نے بتایا سالانہ امتحانات میں اُسکے ساتھ نا انصافی کی گئی جسکی وجہ سے اُسکے نمبر کم آئے اور یوں وہ اگلی کلاس میں نہ جاسکا تو اب وہ احتجاج کر رہا ہے یہ دھرنا اُسکے مطالبات پورے ہونے تک جاری رہے گا- اساتذہ نے پوچھا تو تم نے پہلے کیوں اس پر کوئی احتجاج نہ کیا؟ ایک ماہ بعد کیوں خیال آیا تمہیں؟ طالب علم نے جواب دیا میں نے رزلٹ تسلیم کیا تھا مگر فیل ہونا تسلیم نہیں کرتا- میں سولہ سال سے امتحان دیتا آرہا ہوں مگر کسی امتحان میں پاس نہیں ہو سکا کیونکہ میرے ساتھ ہر امتحان میں بے ایمانی کی جاتی ہے- مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے تمہاری کارکردگی واقعی اتنی خراب ہو کے نمبر نہ ملتے ہوں؟ ایک اُستاد نے کہا- طالب علم نے جواب دیا او جعلی اُستاد ڈالر خور فاشسٹ مجھے تم سے ایسی ہی بات کی اُمید تھی، تم صرف ان کرپٹ اور نالائق طالب علموں کو پاس کر سکتے ہو امتحان میں کیونکہ یہ تمہیں ڈالروں میں فیس ادا کرتے ہیں اور مجھ جیسا ایماندار و دیانت دار انسان ڈالر میں فیس ادا کرنے سے قاصر ہے- اسی اثناء میں طالب علم نے اسکول کے سابقہ پرنسپل اقبال چوہدری کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی- ایک اُستاد نے پوچھا امتحان سے پہلے تک تو تم پرنسل صاحب کے قصیدے پڑھا کرتے تھے مگر اب اچانک کیا ہو گیا جو تم اپنی ناکامی کا ذمہ دار سابق پرنسپل کو بھی ٹھہراتے ہو؟ طالب علم نے جواب دیا، "چوہدری اقبال نے امتحانات میں اپنے منظورِ نظر طالب علموں کو کامیاب کروانے کے لئے جو شرمناک کردار ادا کیا ہے اُس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا" اچھا مگر نتائج آنے کے بعد تو تم نے چوہدری اقبال کا نام تک نہ لیا تھا اگر پرنسپل صاحب تمہاری ناکامی کے ذمہ دار تھے تو اُسی وقت نام لیتے، ایک ساتھی طالب علم نے کہا- احتجاج کرنے والے طالب علم نے غصّہ سے جواب دیا او پٹواری تُو تو وکالت کرے گا ہی اقبال چوہدری کی اُس نے ملی بھگت سے تجھے پاس جو کر دیا- تم، اقبال چوہدری اور شکیل ہاکر سب ملے ہوئے تھے امتحانات میں مجھے ناکام کرنے کے لئے- ہیں؟ مگر شکیل ہاکر جو گلی کے نکڑ پر اخبار بیچتا ہے اُسکا امتحانات میں تمہارے ناکام ہونے سے کیا تعلق؟ وہ تو صرف امتحانی نتیجہ اپنے اخبار میں شائع کرتا ہے- ایک اُستاد نے حیرت سے پوچھا- او میں نہیں جانتا بس میں کہہ رہا ہوں نہ شکیل اخبار فروش نے جیسے ہی اخبار میں امتحانی نتائج کی لسٹ چھاپی امتحانات کا نقشہ ہی بدل گیا جن پیپروں میں، میں پاس ہونے والا تھا اُن میں بھی فیل ہو گیا اور یہ سب شکیل اخبار فروش کی وجہ سے ہوا، دھرنا دینے والے طالب علم نے جواب دیا-<br />
<a name='more'></a><br />
وقت تیزی سے بیت رہا تھا شام کے سائے گہرے ہونے لگے، طالب علم کسی صورت بات ماننے کو تیار نہیں تھا اور اپنی ہی بات پر اَڑا ہوا تھا اُساتذہ کو کچھ سمجھ نہ آئے کے وہ اُسکو کیسے سمجھا بجھا کر گھر بھیجیں ایک اُستاد نے پوچھا اب تم کیا چاہتے ہو؟ طالب علم نے جواب دیا " امتحانی پرچے دوبارہ چیک کروائے جائیں اگر غلط چیکنگ نکل آئے تو شرفو چوکیدار کی نگرانی میں دوبارہ امتحان لئے جائیں- مگر اب یہ ممکن نہیں اگلی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں اگر ہم دوبارہ سے پچھلے امتحان کے چکر میں ہی پڑے رہیں گے تو طالب علموں کا موجودہ تعلیمی سال بھی ضائع ہونے کا خدشہ ہے، اُساتذہ نے کہا- تو پھر میں یہیں بیٹھا رہوں گا باہر سے کسی بھی وقت شرفو چوکیدار اندر آکر عمارت پر قبضہ کر لے گا اور پھر وہی ہوگا جو میں کہونگا، اب سوچ لو تم سب جعلی اُستادوں- طالب علم نے قدرے اُمید سے جواب دیا- تمام اُساتذہ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے کے کس طرح اس مصیبت سے جان چھڑائیں اور گھر جائیں جہاں اُنکے گھر والے انتظار کر رہے ہونگے- اچانک ایک اُستاد کو طالب علم کا احتجاج ختم کروانے کی تدبیر ذہن میں آئی اُس نے کہا " سنو عمیر، تمہارا وہ دوست جو کیمرج اسکول میں پڑھتا ہے کیا نام ہے اُسکا شہزادہ سلیم، اُسکے گھر میں پالے ہوئے نایاب نسل کے ہاتھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور اُسکو تمہاری مدد کی ضرورت ہے وہ تمہیں یاد کر رہا تھا، یہ سن کر عمیر خان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ احتجاج اور امتحان میں ناکامی بھول کر اپنے دوست سلیم شہزادے کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ اُسکے ہاتھیوں کو بچا سکے-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-4945811613120004112014-04-13T01:03:00.000+05:002014-05-12T22:16:19.755+05:00صرف برائیاں ہی نظر آتی ہیں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
حال ہی میں آئی 2 امریکی فلمیں، django unchained اور 12 years a slave جنہوں نے نہیں دیکھیں میرا مشورہ ہے ضرور ملاحظہ کریں، دونوں فلموں کی کہانی انیسویں صدی کے امریکہ پر مبنی ہے جب غلامی کا رواج عام تھا- ان فلموں کو دیکھ کر آپ کو پتا چلے گا غلام کن حالات میں اپنی زندگی گزارتا تھا اُس پر کس قسم کے مظالم کیے جاتے تھے اور اُنکا استحصال کرکے آقا کس طرح اپنی دولت میں اضافہ کیا کرتے تھے- امریکی تاریخ کا یہ تاریک پہلو دُنیا کے سامنے خود امریکی فلم ساز ہی لے کر آئے ہیں- ان فلموں کو کافی ایوارڈ بھی ملے مگر امریکہ میں کسی نے ان فلمسازوں پر پاکستانی ایجنڈے کے تحت کام کرنے کا الزام نہیں لگایا، نہ کسی نے یہ کہا کے یہ فلمیں پاکستانی سازش ہیں امریکہ کو بدنام کرنے کی جب ہی ان فلموں کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کے تمام فلم ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئیں- نہ کسی نے یہ کہا، ان فلم سازوں کو امریکی تاریخ نظر آتی ہے، عربوں کی تاریخ نظر نہیں آتی؟ کیا اُنہوں نے غلاموں کا کم استحصال کیا؟ یہاں تک کے خلیفہ اور سپاہ سالار کے درمیان اس بات پر جھگڑا ہو جاتا تھا کے مفتوح علاقوں کے اچھے غلام اور کنیزیں سپہ سالار نے اپنے پاس رکھ لئے خلیفہ کو نہیں پیش کیے- عرب ممالک میں آج تک غیر ملکی ملازمین کے ساتھ غلاموں والا سلوک ہوتا ہے یہ نہیں دکھائی دیتا اِنکو؟ نہ کسی نے یہ کہا ان فلم سازوں کو انڈیا نظر نہیں آتا جہاں آج بھی غربت اور افلاس کے ہاتھوں انسان کی حالت غلاموں جیسی ہے؟ ان فلم سازوں کو پاکستان نہیں نظر آتا جہاں آج تک مزارعوں کی حالت وڈیرے اور جاگیردار کے زرخرید غلام جیسی ہے جہاں ہر سال غیرت کے نام پر ہزاروں عورتیں غلاموں کی طرح قتل کر دی جاتی ہیں یا اُنکے چہرے تیزاب پھینک کر مسخ کر دیے جاتے ہیں، جہاں 16 سالہ بچی تعلیم کے حق میں آواز اٹھانے پر گولی کھاتی ہے- ان فلم سازوں کو سعودی عرب نظر نہیں آتا جہاں عورت کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں، گیارہ ستمبر کے حملے نظر نہیں آتے جس میں 3000 امریکی مارے گئے؟ یہ اُس پر بات کیوں نہیں کرتے؟ امریکیوں پر ہونے والے ظلم پر اِن رُوپے اور ریال خور فلم سازوں کی زبانوں کو تالا لگ جاتا ہے؟ ان فلم سازوں کو شمالی کوریا اور ایران کیوں نہیں نظر آتا؟ روس کی یوکرین میں مداخلت پر یہ بات کیوں نہیں کرتے؟ اُس پر کوئی فلم کیوں نہیں بناتے؟ یہ ہزار سال پہلے گزرے وائکنگز کی تاریخ پر بات کیوں نہیں کرتے جنہوں نے برطانیہ پر حملے کرکے انسانوں کو تہہ تیغ کیا- اِنکو تاریخ میں چنگیز اور ہلاکو کی قتل و غارت نہیں یاد ان کو ہٹلر سٹالن پول پوٹ اور ماؤ کے دور میں مارے گئے لوگوں پر کوئی فلم بنانے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ افغانستان میں طالبان نے جس طرح تاجکوں اور ہزارہ کا قتلِ عام کیا یہ اُسکی بات کیوں نہیں کرتے؟ ان کو تاریخ میں صرف امریکیوں کی برائیاں ہی نظر آتی ہیں اور امریکہ دُشمن یہودی نواز آسکر جیوری جس نے ان برائیوں پر مبنی فلموں کو بھرپور پذیرائی دی، یہ سب امتِ مسلمہ کی امریکہ جیسی تاقیامت قائم رہنے والی نظریاتی ریاست کے خلاف ایک منظم سازش ہے-<br />
<a name='more'></a><br />
اب زرا شرمین عبید چنائے کی اُس ڈاکومنٹری کو یاد کیجئے جسکو پہلی پاکستانی آسکر یافتہ فلم کا اعزاز حاصل ہوا- مگر اُس پر ہمارا رویہ کیسا تھا؟ کیا وہ ڈاکومنٹری غلط بیانی پر مبنی تھی؟ کیا پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش نہیں آتے یا شرمین نے کسی دوسرے ملک میں پیش آنے والے واقعات کو پاکستان کے نام سے منسوب کرکے دُنیا میں ہماری رسوائی کا سامان کیا؟ مجھے تو اُس میں کوئی بھی ایسی بات نظر نہیں آئی جو حقائق سے متضاد ہو- بہت سے لوگوں کا کہنا تھا اِکا دُکا پیش آنے والے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا- ایسے لوگوں کو میں اِکا دُکا کی تعریف بتانا پسند کروں گا زمین پر شہابِ ثاقب ٹکرانے کے واقعات گزشتہ 3 سال میں اِکا دُکا پیش آئے مگر کوئی کہے پاکستان میں گزشتہ 5 سال میں کرپشن کے اِکا دُکا واقعات پیش آئے کیا یہ بات دُرست ہوگی؟ یقیناً ایسا نہیں تھا- پاکستان میں باقاعدہ ادارے موجود ہیں جو تیزاب گردی کی شکار خواتین کا علاج اور مدد کرتے ہیں- کیا پاکستان میں شہابِ ثاقب سے متاثرہ افراد کے لئے کوئی ادارہ موجود ہے؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو اُسکی وجہ یہ ہے کے شہابِ ثاقب کے کرہ ارض سے ٹکرانے کے واقعات اِکا دُکا ہی پیش آتے ہیں- دوسرا اعتراض یہ پیش کیا گیا کہ مغرب کو پاکستان کی اچھائیاں نظر نہیں آتیں؟ عارفہ کریم جیسی ہونہار بچیاں نظر نہیں آتیں؟ ایدھی جیسے لوگ نظر نہیں آتے؟ فلاں اور ڈھمکاں نظر نہیں آتا؟ نگاہِ انتخاب ٹہرتی ہے تو خامیوں پر ہی کیوں؟ مگر ان حضرات کو یہ نظر نہیں آتا کے عارفہ کریم کو آپ جانتے ہی امریکی کمپنی مائیکروسافٹ کی وجہ سے ہیں وہ اگر اُسکو پذیرائی نہ دیتے تو شاید ہمارا میڈیا بھی نہ دیتا اور ہمیں خبر بھی نہ ہوتی کے ملک میں اس نام کی کوئی بچی کبھی گزری- ایدھی صاحب کو درجنوں غیر ملکی ایوارڈز مل چکے- یہ ساری باتیں کوئی امریکی بھی کر سکتا ہے مذکورہ بالا 2 فلموں کے ہدائیتکاروں کے بارے میں، کے اِنکو امریکی تاریخ میں گزرے ابراہم لنکن جیسے لوگ نظر نہیں آتے جنہوں نے غلامی کی قبیح رسم کا خاتمہ کیا؟ اِنکو فلاں نظر نہیں آتا؟ ڈھمکاں نظر نہیں آتا؟ مگر وہ لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے کیونکہ وہ خبطِ عظمت یا نرگسیت میں مبتلا نہیں ہیں-<br />
<br />
کبھی آپ نے سُنا ہے کوئی سفاک قاتل عدالت میں پیش ہوا ہو اور وہاں وکیل کہے جج صاحب آپ کو یہ نظر نہیں آتا کے قاتل دس لوگوں کی کفالت بھی کر رہا تھا اور رفاہی کاموں میں پیش پیش تھا؟ نہیں جب مقدمہ پیش ہوتا ہے تو صرف جرم پر ہی بات کی جاتی ہے جرم کے علاوہ انسان اپنی ذاتی زندگی میں کیسا ہے اس سے دُنیا کی کسی عدالت کو سروکار نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی بھی ضابطہ انصاف کے تحت فیصلہ محض اسلئے تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ ملزم میں کچھ اچھائیاں بھی موجود ہیں- تنقیدی فلمیں، تحریریں یا ڈکومنٹریاں بھی ایک طرح کا مقدمہ ہوتی ہیں اُسکے جواب میں چھلانگیں مارنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی- آج امریکہ اگر اپنے تمام تر جنگی جنون کے باوجود سپر پاور ہے اور اُنکا معاشرہ ہمارے معاشرے سے زیادہ منظم اور حقیقت سے قریب ہے تو اُسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کے وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا جانتے ہیں اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں- آپ کسی امریکی شہری کو کہیں کے اُنکے ملک نے عراق پر صرف شک کی بنیاد پر حملہ کرکے غلطی کی- وہ آگے سے یہ نہیں کہے گا تو کیا ہوا؟ آپ نے 71 میں بنگلہ دیش میں جو کیا اُسکا کیا؟ بلکہ وہ تسلیم کرے گا کے ہاں ہم نے غلطی کی تھی- اِسکے برعکس آپ پاکستانیوں سے 71 پر بات کرکے دیکھ لیں اکثریت اُس واقعے کی ذمہ داری شیخ مجیب سے لے کر اندرا گاندھی اقوامِ متحدہ اور امریکی بحری بیڑے تک سب پر عائد کرینگے اور اُسکو دُشمن کی سازش گردانیں گے مگر اپنی غلطی نہیں تسلیم کرینگے- اگر ہمیں اپنی حالت بدلنی ہے تو سب سے پہلے اپنی سوچ بدلنا ہوگی، نرگسیت اور خبطِ عظمت سے باہر نکلنا ہوگا ورنہ ہر گلی سے لال ٹوپی والوں کا لشکر نکلے گا جو ہاتھ میں پتھر اٹھائے لال قلعہ فتح کرنے مارچ کرتا ہوا واہگہ کی جانب پیش قدمی کرے گا مگر راستہ میں ہی پولیس کا لاٹھی چارج دیکھ کر اپنا ارادہ ملتوی کرکے واپس گھر آجائے گا-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-15461811307884485592014-01-20T17:02:00.002+05:002014-01-25T21:08:29.177+05:00جاوید چوہدری اور طالبان ترجمان - ایک مختلف نقطہ نظر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہم بحثیت قوم وہ لوگ ہیں جو کسی بھی معاملے میں متوازن سوچ اور رویوں کے حامل نہیں- کرکٹ سے متعلق ہمارے رویے پر غور کرتے ہیں- جب ٹیم کوئی میچ ہارتی ہے تو وہی لوگ سب سے زیادہ لعن طعن کرتے ہیں جو پچھلے میچ کی جیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے- شاہد آفریدی کوئی میچ بہترین کارکردگی سے جتوا دے تو پوری قوم کا بس نہیں چلتا اُسکو دیوتا مان لے اور یہی آفریدی اگلے کسی میچ میں صفر پر آوٹ ہو جائے تو اُسکے تمام ناقدین اپنی توپوں کا رُخ اُسکی جانب کر دیتے ہیں اور اُسکے جارحانہ سٹائل پر تنقید شروع ہو جاتی ہے- اُسکے بارے میں لطائف گھڑ کر sms کیے جاتے ہیں- سیاست اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہمارا رویہ اسی طرح غیر متوازن ہے-<br />
<br />
<a name='more'></a> کل رات ایکسپریز نیوز پر اسپیشل ٹرانسمیشن میں طالبان ترجمان اور جاوید چوہدری کے درمیان ہونے والی گفتگو نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا ہے- بہت سے لوگ اس بات پر خفا ہیں کے طالبان ترجمان کو میڈیا نے پروگرام میں فون پر کیوں لیا- تو کچھ لوگ اینکر کو بُزدلی کے طعنے دے رہے ہیں- کچھ لوگ اس بات پر خفا ہیں کے کیا میڈیا والوں کی زندگیاں باقی پاکستانیوں سے زیادہ قیمتی ہیں جو جاوید چوہدری نے اپنے تین کارکنوں کی موت پر طالبان سے مُک مُکا کر لیا- بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض ہے کے طالبان کو کوریج دینے کا وعدہ کر کے جاوید چوہدری نے قومی مفاد کے منافی کام کیا- ہمارے کچھ دوست تو ایسے بھی ہیں جو جاوید چوہدری کا موازنہ چوہدری اسلم سے کرنے لگے کہ دیکھو یہ بھی چوہدری وہ بھی چوہدری ایک کو طالبان ترجمان نے فون کیا تو اُس نے آگے سے طالبان ترجمان کو جھاڑ پلا دی اور یہ دوسرا تو ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا- میرے نزدیک تو ان دونوں چوہدریوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں- چوہدری اسلم ایک سپاہی تھا اور سپاہ میں بھرتی ہی بہادر لوگ کیے جاتے ہیں اُنکا کام ہی دشمنوں سے لڑنا ہوتا ہے- جاوید چوہدری کوئی سپاہی نہیں بلکہ ایک صحافی ہے جسکا کام خبریں اور معلومات عوام تک پہنچانا ہے- اگر آپ ایک صحافی سے امید کرتے ہیں کے وہ سپاہی کی طرح دشمن سے لڑنے لگ جائے (ٹاک شو میں فون پر زبانی ہی سہی) تو پھر وہ اپنا اصل کام نہیں کر سکے گا یعنی خبریں اور معلومات (جس میں طالبان کا موقف بھی شامل ہے) عوام تک پہنچانا- جو کام سپاہی کر گیا ویسی بہادری کی اُمید کسی صحافی سے رکھنا خام خیالی ہے- <br />
<br />
جہاں تک بات ہے اینکر کے طالبان سے مُک مُکا کرنے کی تو لوگ یہ بات بھول رہے ہیں طالبان نے نشانہ اُن غریب ورکرز کو بنایا جو سٹوڈیو میں بیٹھ کر ایر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا میں کام نہیں کرتے بلکہ سڑک پر پائے جاتے ہیں- لہٰذا اگر اینکر طالبان سے یہ نہ بھی کہتا کے آپ ہمارے ان غریب ورکرز کو نشانہ مت بنائیں ان لوگوں کا تو میڈیا کی پالیسی سے بھی کوئی تعلق نہیں تو بھی اینکر حضرات کی جان کو اسلام آباد کے اسٹوڈیوز میں کوئی خطرہ نہیں تھا طالبان نے نشانہ آئیندہ بھی میڈیا کے اُن لوگوں کو بنانا تھا جو سڑکوں پر با آسانی نشانہ بنائے جا سکتے ہیں- مجھے اُسکی اپیل کا مقصد اُسکی خود کی جان بخشی کروانے سے زیادہ اُن غریب کارکنان کی جان بخشوانا نظر آتا ہے جن کو مستقبل میں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے- اس جان بخشی کے بدلے اینکر نے طالبان کو مناسب کوریج، اُنکا موقف پیش کرنے اور دیگر سہولیات کی جو آفر کی اس پر بھی کچھ دوستوں نے تنقید کی ہے کہ طالبان کے پریس ریلیز میڈیا پر چلینگے یہ ایک غیر مناسب بات ہوگی اور اِس سے مسائل میں اضافہ ہوگا- مگر اس بات کا ایک پہلو اور بھی ہے جو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کے طالبان کے بارے میں عوام کی رائے اس قدر منتشر ہی اس وجہ سے ہے کے میڈیا پر طالبان کو براہ راست پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مذہبی جماعتوں اور طالبان سے زیادہ طالبان کے وفاداروں کا پروپگینڈا کامیاب ہو رہا ہے- ہر واقعہ کے بعد میڈیا پر یہ خبر چلا دی جاتی ہے کے واقعہ کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی مگر براہ راست طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کی فون کال یا وڈیو نشر نہیں کی جاتی- یہی وجہ ہے کے فرید پراچہ جیسے طالبان ہمدرد میڈیا پر آ کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں کے ہم کیسے مان لیں کے دہشتگردی کے پیچھے طالبان ہیں- یہ تو میڈیا ہی ہمیں خبر دیتا ہے کے طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی- دوسرا سوال جو جماعتیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کے جب طالبان ترجمان میڈیا والوں کو فون کرکے آئے دن ذمہ داری قبول کرتا ہے تو خفیہ ادارے فون کال ٹریس کرکے اُس تک کیوں نہیں پہنچ جاتے؟ اُسکا جواب بھی اُمید ہے عوام تک پہنچ گیا ہوگا جب ٹاک شو میں اینکر نے بتایا کے یہ فون کال افغانستان سے آئی تھی- عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات سے ہی انکاری ہے کے طالبان کا پاکستان میں کوئی وجود ہے- لوگوں کا خیال ہے طالبان تو افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں پاکستان میں جو دہشتگردی ہوتی ہے وہ بیرونی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرواتی ہیں- طالبان ترجمان جب اپنا موقف میڈیا کے سامنے رکھے گا تو اس سے عوام آہستہ آہستہ حقیقت کو قبول کر ہی لینگے- طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنی ہے تو اُسکا یہی طریقہ ہے کے طالبان کا موقف عوام کے سامنے رکھا جائے- <br />
<br />
ایک اور بات جس پر بہت سے لوگوں نے غور نہیں کیا طالبان ترجمان نے میڈیا پر حملے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کے میڈیا نیوٹرل نہیں تھا وہ طالبان کی مخالفت کر رہا تھا اور جو تحریکِ طالبان پاکستان کی مخالفت کرے گا ہم اُس کو نشانہ بنائیں گے- یہ وہ نقطہ ہے جو پاکستانی عوام کی اکثریت جانتی نہیں ہے یا سمجھتی نہیں ہے- کچھ لوگوں کا خیال ہے طالبان امریکہ کے خلاف ہیں، کچھ کا خیال ہے وہ امریکی جنگ کے خلاف ہیں تو کچھ کے مطابق طالبان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں یا ڈرون کا ردِ عمل ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے طالبان جمہوریت کے خلاف ہیں- طالبان ایک مسلح تحریک ہے جسکے اپنے اغراض و مقاصد ہیں وہ کسی ایک گروہ یا ملک کے خلاف نہیں ہیں وہ ہر اُس چیز کے خلاف ہیں جو اُنکی مخالفت کرتی ہے- اب چاہے وہ کوئی ملک ہو میڈیا ہو کوئی حکومت ہو یا کوئی نظام- جو طالبان کے خلاف ہوگا یا جسکے بھی عقائد طالبان کے عقائد سے میل نہیں کھاتے ہونگے وہ طالبان کے نشانے پر ہوگا- آج نہیں ہے تو کل ہوگا- اس میں وہ تمام مذھبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو آج طالبان سے زیادہ طالبان کے وفا دار بنے ہوئے ہیں وہ جانتے نہیں ہیں یا جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں کے طالبان نے فلحال اُنکو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہوا ہے مگر وہ بھی طالبان کے نشانے سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے کیونکہ طالبان مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں- جمہوری کوششوں پر نہیں- آپ جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے لاکھ طالبان اپولوجسٹ بن جائیں طالبان ہمیشہ آپ کو اپنے سے کمتر ہی سمجھیں گے کیونکہ وہ "جہاد" کر رہے ہیں اور آپ میڈیا پر بیٹھ کر اُنکی وکالت کر رہے ہیں بجائے اُنکے ساتھ عملی کوششوں میں حصّہ لینے کے- آج میڈیا نشانے پر ہے کل کو دائیں بازو کی مذھبی سیاسی جماعتیں بھی ہونگی- طالبان نے ایک حملہ قاضی حُسین احمد پر کیا بھی تھا مگر مذہبی جماعتوں نے یہ بات نہیں سمجھی- وہ اس نقطہ کو جتنا جلد سمجھ جائیں ریاست اور خود اُنکے اپنے لئے اُتنا ہی بہتر ہوگا-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-8152191355248556272013-12-30T00:56:00.001+05:002014-01-20T17:03:06.071+05:00نئے سال کا آغاز اور حادثات کی یلغار<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آج سے دو دن بعد نیا سال شروع ہونے والا ہے- دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا آغاز مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے- مگر ان میں سے کوئی بھی طریقہ اس قدر واہیات اور بھونڈا نہیں ہے جس طرح سے پاکستان میں نئے سال کا آغاز کیا جاتا ہے- پاکستان میں نئے سال کا استقبال ہوائی فائرنگ اور سڑکوں پر موٹرسائیکلوں کے کرتب سے کیا جاتا ہے- ان دونوں طریقوں میں مسئلہ یہ ہے کے یہ انتہائی خطرناک ہیں نہ صرف اپنے لئے بلکہ دیگر لوگوں کے لئے بھی- ہمارے ہر سال کا آغاز ہی حادثات سے ہوتا ہے جو سارا سال ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے- انتہائی افسوسناک خبروں کے ساتھ ہمارے بیشتر تہواروں کا اختتام ہوتا ہے چاہے وہ بسنت ہو یا نیو ائیر نائٹ-<br />
<br />
<a name='more'></a><br />
ہر سال 31 دسمبر کی رات پورا پاکستان ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھتا ہے- مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکا یہ کیا طریقہ ہوا خوشی منانے کا؟ ہوائی فائرنگ کرنے کا مقصد طاقت کا اظھار ہوتا ہے- یہی وجہ ہے جب کسی انسان کو اپنے گھر کی طرف حملہ آور آتے یا ڈاکو پھلانگتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ بیرونی حملہ آوروں یا لٹیروں کو ڈرانے کے لئے ہوائی فائرنگ کرتا ہے- اس کا مقصد حملہ آوروں کو یہ بتانا ہوتا ہے کے میں بھی اسلحہ سے لیس ہوں اور اگر اپنے ارادوں سے باز نا آئے تو مسلح مقابلہ ہو سکتا ہے-<br />
جس طرح سے پاکستان میں 31 دسمبر کی رات ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے مجھے لگتا ہے شاید اس فائرنگ کا مقصد کسی دوسرے سیّارے سے کرّہ ارض کی جانب پیش قدمی کرتی کسی خلائی مخلوق کو ڈرانا ہوتا ہے- اور یہ نادیدہ خلائی مخلوق ہر سال ہماری طاقت دیکھ کر حملہ کرنے کا ارادہ اگلے سال تک کے لئے ملتوی کر دیتی ہے- خوشی منانے کا یہ عجیب بلکہ واہیات اور خطرناک طریقہ میرے سمجھ سے بالاتر ہے- خطرناک اسلئے کے بندر کے ہاتھ اُسترا یا ماچس لگ جائے تو وہ پورے جنگل اور بلخصوص بندر کے لئے خطرناک صورتحال ہوتی ہے اور وجہ اُسکی ناتجربہ کاری ہوتی ہے- ہمارے ملک میں بیشتر لوگ لائسنسڈ اسلحہ بطور فیشن صرف نیو ائیر اور شادی بیاہ کے موقع پر استعمال کرنے کی غرض سے رکھتے ہیں- اسلحہ ایسی چیز نہیں جو بطور فیشن رکھی جائے اور اسکو استعمال اور ہینڈل کرنے کی باقائدہ تربیت نہ لی جائے ورنہ ایسی صورت میں اسلحہ رکھنے سے انسان محفوظ نہیں بلکہ مزید خطرے میں آجاتا ہے- نئیو ائیر پر حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کے لوگوں نے اسلحہ استعمال کرنے کی بقاعدہ تربیت نہیں لی ہوتی اُن سے غلطی سے گولی چل جاتی ہے اور یہ گولی کسی نہ کسی کے لگ جاتی ہے- دوسری وجہ حادثات کی یہ ہے کے ہوا میں چلائی گئی گولی واپس زمین کی طرف بھی آتی ہے ظاہر ہے جب ہوائی فائرنگ گنجان آباد شہروں میں کی جائے گی تو اس بات کا بہت امکان ہے کے ہوا میں چلائی گئی گولی جب زمین پر آ کر گرے گی تو وہ کسی انسان پر گر کر اُسکو زخمی یا ہلاک کر سکتی ہے-<br />
<br />
ان حادثات کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ عوام پر عائد ہوتی ہے- کوئی بھی حکومت ہر شہر کی ہر گلی میں پولیس تعینات نہیں کر سکتی جو لوگوں پر نظر رکھے اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کرے- عوام میں ہی اس بات کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کے آپ کی تفریح کسی کی جان سے بڑھ کر نہیں- پستول کی ایک گولی تیس رپے اور رائفل کی سو رپے سے زائد کی آتی ہے اور ہر سال 31 دسمبر کو ملک بھر میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں گولیاں تو فائر کی جاتی ہونگی اگر اِسکا حساب لگایا جائے تو یہ ایک خطیر رقم بنتی ہے اگر لوگ اس رقم کو ہوا میں اُڑا کر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کی بجائے مستحقین میں تقسیم کر دیں تو یقیناً بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جائے گا وہ نئے سال کا آغاز بہتر طریقے سے کر سکینگے- میری نظر میں تو نئے سال کی خوشی منانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا-<br />
<br />
یہ بات بھی سوچنے کی ہے کے ہمارے ہی ملک کے نوجوان نئے سال کا آغاز ان خطرناک سرگرمیوں سے کیوں کرتے ہیں؟ باقی دنیا میں ایسا کیوں نہیں ہوتا- میرے خیال میں اس کی وجہ بے جا پابندیاں اور نکتہ چینی ہے- ہر سال 31 دسمبر سرِ شام ہی ایک ڈنڈا بردار ٹولہ سڑکوں پر نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو بھی نئے سال کی خوشی مناتا نظر آئے اُسکو آڑے ہاتھوں لیتا ہے- البتہ کسی مسلح شخص کو جو ہوائی فائرنگ کر رہا ہو یا جو موٹرسائیکل پر ہوا سے باتیں کر رہا ہو اُسکو آڑھے ہاتھوں لینا آسان کام نہیں ہوتا- نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کے نیا سال منانا ہماری روایات اور اقدار کے منافی ہے اور اُسکو معیوب سمجھا جاتا ہے- نتیجتاً نوجوان جسکے پاس پہلے ہی تفریح کے کوئی خاص ذرائع نہیں وہ اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور نیو ائیر منانے میں مہم جوئی کا عنصر شامل ہو جاتا ہے- اگر ہمارے ملک میں نوجوانوں کو نئے سال کا آغاز منانے کی آزادی ہو تو کوئی بھی نیا سال یقیناً ایسے منانا نہیں پسند کرے گا جیسے فلحال منایا جاتا ہے-</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-12298330894624116202013-11-13T20:22:00.001+05:002013-12-30T00:58:07.634+05:00جماعت اسلامی اور کنفیوزڈ عوام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پروپگنڈے کے فن میں جتنی مہارت جماعت اسلامی کو حاصل ہے اگر آج ہٹلر زندہ ہوتا تو وہ یقیناً اپنے وزیر اطلاعت گوئبلز کو ٹریننگ کے لئے منصورہ بھیج دیتا- غالب اگر موجود ہوتے تو وہ یقیناً فرماتے: <br />
<br />
پروپگینڈے کے تم ہی اُستاد نہیں ہو گوئبلز <br />
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی منور حسن بھی تھا<br />
<br />
ملالہ کو گولی لگنے کا واقعہ ہو، طالبان کے دھماکے ہوں یا کوئٹہ میں لشکر جھنگوی کی کاروائیاں ہوں ان سب واقعات کو جماعت نے ہمیشہ تیسری قوتوں کے کھاتے میں ڈال کر طالبان کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی بعض اوقات تو خطرہ محسوس ہوتا تھا کے کہیں طالبان بُرا ہی نہ مان جائیں کے وہ اتنی محنت سے کاروائیاں کرتے ہیں پھر اُسکی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور جماعتی مولوی سارا کریڈٹ امریکہ انڈیا اور اسرائیل کو دے دیتے ہیں-<br />
<br />
<a name='more'></a>جماعتیوں کا پروپگینڈا ہمیشہ مرحلہ وار ہوتا ہے اور زیادہ تر اگلا مرحلہ پچھلے پروپگینڈے کی نفی کر رہا ہوتا ہے- مثلاً جب پرویز مشرف کے دور میں قبائلی علاقوں میں آپریشن کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کے وہاں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں تو جماعتی یہ کہتے پائے جاتے تھے کے ایسا ممکن ہی نہیں ہے کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجو آ جائیں اور وہاں ٹِک سکیں کیونکہ اُس علاقے کی روایات یہ ہیں کے وہاں مہمانوں کو مہمان خانے میں ٹہرایا جاتا ہے اور پورے گاوں کو خبر ہو جاتی ہے پورا گاوں مہمان سے ملنے آتا ہے- مگر بعد میں قبائلی علاقوں تو کیا پاکستان کے بڑے شہروں سے بھی غیر ملکی جنگجو برآمد ہوے، پشاور ایرپورٹ کے حملے میں غیر ملکی وسطیٰ اشیا کے جہادی ہی ملّوث تھے- ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں اسلامک موومنٹ اف ازبکستان کے لوگ بھی قید تھے جو جیل حملے میں طالبان نے آزاد بھی کروا لئے-<br />
<br />
اسی طرح جب لال مسجد کا واقعہ ہوا تھا تو جسکے آخر میں مولوی عبدالعزیز برقعہ پہن کر فرار ہوے- تب سے آج تک جماعتی یہ راگ الاپتے رہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش تھی مولانا عبدالعزیز غازی کو شرمندہ کرنے کی جو انکو برقعہ پہنا کر لائیو TV پر لایا گیا- عوام کی ایک بڑی تعداد کچھ دن پہلے تک واقعی یہ سمجھتی تھی کے جماعتی موقف دُرست ہے مگر کچھ دن پہلے حامد میر کے پروگرام میں جب مولانا عبدالعزیز تشریف لائے اور حامد میر نے مولانا سے برقعے کے بارے میں سوال کیا تو مولانا کا جواب خود ہی <a href="http://www.dailymotion.com/video/x16ngvt_molana-abdul-aziz-lal-masjid-operation-ke-doran-burqa-pehan-kar-kyun-nikle_news#from=embediframe" target="_blank">ملاحظہ</a> کر لیجئے- اس ویڈیو میں تو مولانا نے تسلیم کر لیا اس بات کو اور برقعہ میں فرار ہونے کے شرعی دلائل بھی فراہم کر دیے- مولانا کے دلائل کی روشنی میں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا برقعہ میں فرار ہونا ہر جہادی کا آخری راستہ ہوتا ہے- پنجاب حکومت کو چاہیے کے پنجاب یونورسٹی ہاسٹل سے نکلنے والے برقعہ پوشوں پر خوصوصی نظر رکھی جائے کیونکہ برقعہ کے اندر خاتون کی جگہ کوئی القائدہ کا جنگجو بھی برآمد ہو سکتا ہے جسکو جمعیت کے توسط سے پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں ٹہرایا گیا ہو-<br />
<br />
جب دو مئی کی سہانی رات امریکی کمانڈوز ہیلی کاپٹر میں آکر ایبٹ آباد میں جماعت کے ہیرو اوسامہ بن لادن کو حکیم ﷲ محسود کی طرح شہادت کے رتبہ پر فائز کر کے گئے تو اُسکے بعد ہمیشہ کی طرح جماعتی موقف گمراہ کن تھا کہ اُسامہ تو ایبٹ آباد میں موجود ہی نہیں تھا وہ تو کب کا مر کھپ چکا تھا یہ سب امریکیوں کا ڈرامہ ہے- مگر اس پروپگینڈے کی قلعی اُس وقت کُھل گئی جب الجزیرہ TV (جو کے برادر اسلامی ملک کا ہے) نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی- کمیشن میں شامل جج صاحبان کی تصدیق کے بعد یہ ثابت ہو گیا کے یہ وہی رپورٹ ہے جو کمیشن نے بنائی تھی- اُس رپورٹ کو پڑھ لینے کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کے اُسامہ بن لادن پاکستان میں ہی موجود تھا- اگر کوئی اب بھی بضد ہو کے اُسامہ ایبٹ آباد میں نہیں تھا تو وہ یہ بتا دے کے پھر اُسکے درجن بھر عربی بیوی اور بچے ایبٹ آباد کب اور کیسے آ گئے- کیا اُنکو بھی امریکی اپنے ساتھ ہیلی کاپٹروں میں بٹھا کر لائے تھے؟<br />
<br />
جب ملالہ کو گولی لگی تو جماعتیوں کا ابتدائی موقف یہ تھا کے ملالہ کو گولی امریکی ایجنٹوں نے ماری ہے تاکہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کی راہ ہموار کی جا سکے- ویسے قبائلی علاقوں میں امریکی آے دن بغیر راہ ہموار کیے ڈرون مارتے ہیں- پھر جب دیکھا کے قبائلی علاقوں میں کوئی آپریشن ہوتا دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا تب پروپگینڈا اگلے مرحلے میں داخل ہوا جو کے یہ تھا، ملالہ کو گولی لگی ہی نہیں یہ سب امریکی ڈرامہ ہے مسلمانوں کی توجہ گستاخانہ فلم سے ہٹانے کے لئے- اسکے بعد راولپنڈی آرمی ہسپتال میں ملالہ کی عیادت کرنے آرمی چیف تشریف لے گئے تو لوگوں نے جماعتیوں سے سوال کرنا شروع کیا کے اگر ملالہ کو گولی لگی ہی نہیں تو کیا عمران خان اور آرمی چیف کیانی بھی اس ڈرامے کا حصہ ہیں؟<br />
جب ملالہ کو ہوش آگیا اور اُسکی شکل دیکھ کر کوئی اندھا بھی بتا سکتا تھا کے گولی لگنے سے پہلے کی تصویروں اور بعد میں بہت فرق ہے- اب مجوراً جماعتیوں کو یہ تسلیم کرنا پڑا کے ملالہ کو واقعی گولی لگی تھی مگر وہ اب بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کے یہ گولی اُنہوںے ہی ماری تھی جنہوں نے اسکی ذمہ داری قبول بھی کی-<br />
<br />
ابھی تازہ ترین جماعتی شوشہ حکیم ﷲ نامی طالبان لیڈر کو شہید کہنے اور اُس پر بضد رہنے کا ہے- اس سلسلے میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کیونکہ حکیم ﷲ محسود امریکیوں کے خلاف افغانستان میں کاروائیاں کرتا تھا لہٰذا وہ شہید ہے- یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے ہزاروں لوگوں کا قاتل اسلئے نیک انسان تھا کیونکہ وہ میرے مخالفین کو نقصان پہنچاتا تھا- جماعت اسلامی نے اس پر بھی بس نہیں کیا اور یہ بھی کہا کے طالبان کے خلاف لڑنے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں ہیں- اب پوری جماعت اسلامی اپنے لیڈران کے بیانات کا دفع کرنے میں لگی ہوئی ہے اور جماعتی پروپگینڈا مشینری ( فوٹوشاپ،امت اخبار، فیس بک پیجز اور کچھ کالم نگار) حرکت میں آچکی ہے مگر وہ ایک بات بھول رہے ہیں کے یہ اسّی کی دہائی نہیں ہے اور نہ اب معلومات کا واحد ذریعہ سرکاری کنٹرولڈ TV اور اخبار ہیں- آج کے آزاد میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں جماعتی پروپگینڈا بری طرح ناکام ہوگا اور مستقبل میں انڈیا اور بنگلادیش کی طرح پاکستان میں بھی جماعتی سوچ دم توڑ دے گی-<br />
<br /></div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-65308100241572746842013-10-23T22:08:00.001+05:002013-11-13T01:37:18.143+05:00قِصّہ چچّا مزمّل سے ملاقات کا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">چچّا مزمّل سے میری جان پہچان کافی پُرانی ہے- وہ میرے بچپن
سے ہی ہمارے محلّے دار ہیں- ستر کی دھائی سعودیہ میں گزارنے کے بعد اسّی کی دھائی
اُنہوں نے افغانستان میں روسیوں سے لڑتے ہوے گزاری اور 90 کی دھائی افغانستان کی
خانہ جنگی پر کُڑھتے اور پاکستان میں سیاسی میوزیکل چیر پر تشویش کرتے گزاری- تاہم</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR" lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;"><span dir="LTR"></span>
</span><span lang="ER" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 14pt; line-height: 115%;">اُنکی تشویش 1996 میں مسّرت میں تبدیل ہو گئی تھی جب
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی- اب وہ محلّے میں فیصل جنرل اسٹور نامی کریانے کی
دُکان چلاتے ہیں- اگرچہ اُنکے خاندان میں دور دور تک فیصل کسی کا نام نہیں، میرے
پوچھنے پر ایک دفعہ اُنہوں نے بتایا کے اُنہوں نے اپنے سعودیہ میں قیام کے دوران فیصلہ
کر لیا تھا اب کی بار اگر خدا نے اولاد نرینہ سے نوازا تو اسکا نام برادر اسلامی
ملک کے سربراہ کے نام پر فیصل رکھیں گے- اِسکے بعد بیٹا تو اُنکا کوئی نہ ہوا اور
جو بڑے بیٹے موجود تھے اُنکی تبدیلیِء نام کے لئے کافی دیر ہو چکی تھی- اب تک امّت
اخبار پڑھ پڑھ کر اُن کا ٢٠٠١ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کا غم
بھی کافی حد تک دور ہو چکا ہے- آے دن وہ مجھے امّت اخبار کی وہ خبریں دکھاتے ہیں
جن کے مطابق امریکیوں کو افغانستان میں شرمناک شکست ہوئی ہے اور اوریہ مقبول جان
کو کوٹ کرتے ہیں کے تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دُہراے گی اور دو صدیوں میں تین
سپر پاورز کو شکست دینے کا کریڈٹ برادر اسلامی ملک افغانستان کے حصے میں آے گا-</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 14.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">دو دن پہلے دفتر سے واپسی پر میں نے سوچا آج شام کی چائے کے
ساتھ بسکٹ ہونے چاہییں- یہ سوچ کر میں بسکٹ لینے جب اُنکی دکان پر رکا تو چچّا مزمل
نے علیک سلیک کے بعد مجھے اطلاع دی کے امریکا تباہ ہونے والا ہے- میں نے کہا چچّا
آپ نے بھی چڑیا پال لی ہیں کیا؟ یہ اطلاع آپ کو کس نے دی؟ آپ کی چڑیا نے؟ چچا مزمل
نے جواب دیا کے برخوردار یہ تو کامن سینس کی بات ہے اِسکے لئے کسی چڑیا یا عقاب کی
ضرورت نہیں- میں کہا آپ کے کامن سینس کے مطابق امریکا کیسے تباہ ہونے والا ہے؟ تو
اُنہوں نے کہا آج ہی اخبار میں پڑھا ہے کے امریکا کی قرض لینے کی حد پوری ہو چکی
اب امریکا کی معیشت دیوالیہ ہونے والی ہے- زیادہ سے زیادہ دو دن لگیں گے میری
پیشگوئی پوری ہونے میں- اُسکے بعد امریکا کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے،
برآمدات اور اپنے قرض خواہوں کو ادائیگی کے لئے پیسے نہیں ہونگے- میں نے کہا چچا
یہ تو بہت بُری خبر ہے- حسب سابق چچا مزمّل نے مجھے مغرب زدہ ہونے کا طعنہ دیتے
ہوے کہا مجھے پتا تھا تمہیں بہت غم ہوگا امریکا کے تباہ ہونے کا یہ وہی امریکا ہے
جِس نے مصری فوج کو امداد دے کر ہمارے مصری مسلمان بھائیوں بہنوں اور بچوں کا قتل
عام کروایا- میں نے وضاحت کی نہیں بری خبر اسلئے ہے کے امریکا تباہ ہو گیا تو امریکی
معیشت کو چھوڑیں ہماری معیشت کا کیا ہوگا؟ ہمیں جو امریکی امداد ملتی ہے وہ نہیں
ملے گی- رہی بات مصری فوج کی تو امریکا سے زیادہ امداد تو سعودیہ نے دی تھی مصری
فوج کو- آپ مصری فوج کو چھوڑیں اپنی فوج کی فکر کریں امریکی امداد نہیں ملے گی تو
ہماری فوج گولہ بارود کہاں سے خریدے گی؟ کسی دن ایسا نہ ہو کے کنٹرول لائن پر
بھارتی فوج بِلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کرے اور ہماری فوج کے پاس جوابی کاروائی
کرنے کے لئے گولے اور گولیاں ہی نہ موجود ہوں- اِس پر چچا مزمل کی خوشی دیدنی تھی-
اِنہوں نے کہا اِس میں بھی ایک خیر کا پہلو ہے ہماری فوج کے پاس گولہ بارود نہیں
ہوگا تو وزیرستان میں بے گناہ پاکستانیوں کے خلاف تم جیسے مغرب زدہ لبرلز کے کہنے
پر ہماری فوج کروائی نہیں کر سکے گی- میں نے کہا وہ بیگناہ پاکستانی ہماری سرحدوں
کی حفاظت کر لیں گے؟ یا وہ بھی اسلام آباد پر ہی قبضہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
جِس پر چچا مزمل نے کہا وہ بیگناہ پاکستانی نہ صرف اسلام آباد کو کُفّر کی قوتوں سے
پاک کرائیں گے بلکہ ہنود و یہود سے ہماری سرحدوں کی حفاظت بھی کریں گے- میں نے چچا
مزمّل سے دریافت کیا کے بیگناہ مجاہدین کو بھی تو اسلحہ خریدنے اور ملک چلانے کے
لئے پیسوں کی ضرورت ہوگی- جب بقول آپ کے امریکا تباہ ہونے والا ہے تو یہ مجاہدین
ملک کیسے چلائیں گے؟ چچا مزمل نے اُس پر کہا کے خدا بڑا مسبب الا سباب ہے ایک
راستہ بند کرتا ہے تو سو نئے راستے کھول دیتا ہے ساتھ میں اِس بات کا تڑکہ بھی لگا
دیا کے اُسکے لئے خدا پر ایمان ہونا ضروری ہے- امریکا تباہ ہوگا تو چین سے ہماری
ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی ہے چین ضرور ہماری مدد کرے گا ویسے بھی
امریکا کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوے ہیں امریکی امداد میں برکت نہیں ہوتی-
میں نے کہا مگر چین نے تو آج تک پاک ایران گیس پائپ لائن کے لئے ہماری کوئی مدد
نہیں کی چین کونسا دودھ کا دُھلا ہوا ہے چین کے ہاتھ بھی سنکیانگ کے مسلمانوں اور
تبت کے بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہوے ہیں- جہادی تحریکیں چین کا بھی سب سے بڑا
مسئلہ ہیں کیونکے سنکیانگ کے مجاہدین وزیرستان سے ہی تربیت لے کر جاتے ہیں اور
وزیرستانی وہاں جا کر بھی کاروائیاں کرتے ہیں جِس پر چین ہم سے بارہا شکایات بھی
کر چکا ہے، تو اگر امریکا تباہ ہو گیا اور پاکستان پر آپ کے بیگناہ مجاہدین قابض
ہو گئے تو چین ہماری کوئی مدد نہیں کرے گا- یہ صرف امریکا ہے جو ہمیں سب سے زیادہ
امداد دیتا آیا ہے- اب چچا مزمل کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا اُنہوں نے
کہا تمام امت مسلمہ ایک جسد کی مانند ہے پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی تو ہمارے
برادر اسلامی ملک ہماری دل کھول کر مدد کریں گے- میں نے کہا ابھی تھوڑی دیر پہلے
ہی بتایا تھا کے کس طرح آپ کے بردار اسلامی ملک مُرسی کے خلاف مصری فوج کی مدد کر
رہے تھے- کیا مصر میں اسلامی حکومت نہیں تھی؟ چچا مزمل نے کہا تم کتنے ہی حیلے
بہانے کر لو پاکستان میں مجاہدین کامیاب ہو کر رہیں گے امریکا تباہ ہو یا نہ ہو
کوئی مدد کرے یا نہ کرے پاکستان بنا ہی اسلام کے نفاذ کے لئے تھا اور اسلام یہاں
نافذ ہو کر رہے گا، تمہیں اعتراض ہو تو ویزا کے لئے لائن میں لگ جاؤ اپنے پسندیدہ
لوگوں یعنی اہل مغرب کے کسی ملک کھسک لو- میں نے کہا نہیں مجھے تو کوئی اعتراض
نہیں بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے، چچّا نے پوچھا وہ کیا؟ <br />
میں نے کہا آپ کے جنرل سٹور پر آدھے سے زیادہ آئٹمز یہود و نصاریٰ کی ملٹی نیشنل
کمپنیز کے ہوتے ہیں- اول تو جب ہمیں بیرونی امداد نہیں ملے گی ہمارے پاس زرمبادلہ
کے ذخائر ہی نہیں ہونگے تب ہم باہر سے کچھ درآمد ہی نہیں کر سکیں گے بالفرض کر بھی
لیا تو مجاہدین اسلام سب سے پہلے یہود و نصاریٰ سے دوستی اور کاروبار پر ہی پابندی
لگائیں گے- پھر آپ سوچ لیجئے دکان میں اِن آئٹمز کا متبادل کیا فروخت کریں گے ؟
چچا مزمل کو شش و پنج میں پا کر میں نے اُن سے رخصت چاہی-<o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; text-align: right;">
<span style="font-size: large;">
</span></div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-23360396792504763522013-09-24T21:30:00.002+05:002013-10-17T00:09:00.471+05:00دہشتگردی متاثرین اور دہشتگرد ہمدرد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;">دنیا بھر میں لوگ جب اپنی عبادات کے لئے عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں یا اپنے مذہبی جلوس یا کسی مذہبی تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو یقیناً اُنکے دماغ اُس وقت کچھ یہ خیالات ہوتے ہونگے کے اِس سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی- عبادت گاہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرنا ہے اِس بارے میں بھی عبادت کے دوران کچھ خیالات یقیناً آتے ہونگے مثلاً بچے کی فیس جمع کروانی ہے، گھر کا کرایا دینا ہے، عبادت گاہ آنے سے پہلے گھر میں کپڑے دھو کر ڈالے تھے واپسی تک وہ سوکھ چکے ہونگے انکو الگنی سے اُتارنا ہے وغیرہ- یہ تو ہو گئی باقی دنیا کے پُر امن ممالک کی بات اب ذرا وطن عزیز کا ذکر ہو جائے یہاں عبادت کے دوران انسانوں کو آخرت میں کامیابی سے زیادہ اِس بات کی فِکر ہوتی ہے کے وہ فلحال عبادت گاہ سے گھر تک کامیابی کے ساتھ بخیر و عافیت پوھنچ جائیں کہیں عبادت کے دوران کوئی خودکش بمبار نہ پھٹ جائے، عبادت گاہ سے باہر نکالتے وقت کوئی ہم پر فائر نہ کھول دے یا ہم پر راکٹ نہ داغ دے-</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;">ایسا بلکل ممکن ہے کے شاید میں ادھر پاکستانیوں کی دوران عبادت فِکر و پریشانی کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں- انسان فطرتاً اچھے کی ہی امید رکھتا ہے اور یقیناً یہی وجہ ہے کے پاکستان میں وہ طبقات جن پر دوران عبادت حملہ کیے جاتے ہیں غالباً وہ بھی عبادت کے لیے جاتے ہوے اچھے کی ہی امید رکھتے ہونگے- میرا تعلق کیونکے اُن فرقوں سے نہیں ہے جن کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو میں کتنی بھی کوشش کر لوں انکی کیفیت اور جذبات سمجھنے سے قاصر ہوں- تھوڑی دیر کے لئے کوشش کرتے ہیں سمجھنے کی کے ایک انسان جب عبادت گاہ کا رخ کرتا ہے اکیلا یا اپنے اہل خانہ کے ساتھ تو یقیناً اسکے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا ہوگا کے یہ اسکی زندگی کی آخری عبادت ہو سکتی ہے، نہ ہی یہ خیال آتا ہوگا کے اسکے خاندان کے کسی فرد کی زندگی کی یہ آخری عبادت ہوسکتی ہے، نہ ہی یہ خیال آتا ہوگا کے عبادت سے واپسی پر گھر جانے کی بجاے اُسکا باقی کا دن اپنے پیاروں کی تدفین اور باقی کی زندگی انکی جدائی کا غم بھلانے میں گزرے گی- اِس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کے تدفین کے مراحل سے وہ شخص بخیریت گزر جائے گا اور تدفین میں مزید خودکُش دھماکے نہیں ہونگے- نہ یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں آتا ہوگا کے وہ اپنے بچے کے اسکول کی آخری فیس جمع کروا چکا، اگلے مہینے سے اُسکو اپنے بچے کی اسکول کی فیس نہیں دینی ہوگی بلکہ اب اسکی باقی کی زندگی اپنے بچے کی یاد میں رو کر گزرنے والی ہے- ایسا بھی کوئی خیال نہیں آتا ہوگا کے جو پیسے اُس نے اپنی بیٹی کے جہیز یا یونیورسٹی میں داخلے کے لئے جمع کیے ہیں کچھ ہی دیر میں وہ انہی پیسوں سے بیٹی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے والا ہے- اِن میں سے کوئی بھی خیال خوشگوار نہیں ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کے ہمارے ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب تک اِس صورتحال سے دوچار ہو چکی ہے- اب کچھ کوشش اُس انسان کی کیفیت کو سمجھنے کی کرتے ہیں جِس کے ساتھ ایسی کوئی صورتحال پیش آ جاتی ہے- ایسے اندوہناک سانحہ کے بعد یقیناً اُس انسان کو کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آتا ہوگا کے اسکے ساتھ کیا ہو چکا ہے- زخمی ہونے کے باوجود بھی اُسکو زخموں کا کوئی درد نہیں ہوتا ہوگا جتنا درد و غم اُس کو اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کے بچھڑنے کا ہوتا ہوگا- اُس انسان نے وہم و گمان میں بھی اپنے گھر والوں کی اچانک حادثاتی موت کا سوچا ہوتا ہوگا- ُاس کا خیال یہی ہوتا ہوگا کے میرے پیارے ایک خوشگوار زندگی گزار کر بڑھاپے میں اپنی طبعی موت مریں گے- مگر اُسکے اندازوں اور امیدوں پر پانی پھر چکا ہوتا ہے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;"><br /></span>
<span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;">یہ وہ کیفیت ہے جِس سے ہمارے ملک کے ہزاروں شیعہ، مسیحی اور احمدی شہری گزر چکے ہیں- اِسکے بعد جب ٹیلی ویژن پر کوئی مذہبی سیاست دان اِس ساری دہشتگردی کا جواز پیش کرے اور اِسکو غلط کہنے سے بھی گریز کرے یا کوئی کلین شیو رہنما اِسکو امریکا کی جنگ اور ڈرون حملوں کا رد عمل کہے گا تو جب مجھے اِس بات سے شدید اختلاف ہوتا ہے تو اُس بیچارے انسان پر کیا گزرتی ہوگی جو اِس سارے عمل سے گزر چکا ہو- وہ یہی سوچتا ہوگا کے اِن لوگوں کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہے میں نہ تو امریکی ڈرون آپریٹر ہوں نہ امریکی فوجی میری عبادت گاہ میں موجود تھے جسکی وجہ سے اُسکو نشانہ بنایا گیا- پھر جب لوگ اِن دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو انکی تصویروں پر دہشتگردی متاثرین جوتے نہ برسائیں تو کیا کریں؟ ابھی تو صرف تصویر کو جوتے لگے ہیں یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ایسے لیڈران کو اصل میں بھی مشرف اور بش کی طرح جوتے پڑیں گے- </span></span><br />
<div style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">
<br /></div>
</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-55574513229370104492013-09-10T20:16:00.000+05:002013-10-17T00:21:29.027+05:00پاکستانی قوم، طالبان اور مذاکرات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"><span style="font-size: large;">آج کل ہر طرف طالبان سے مذاکرات کی باز گشت سنائی دیتی ہے- حال ہی میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئ اس میں بھی یہی طے پایا گیا کے طالبان سے مذاکرات ہی کیئے جائیں گے آپریشن مسلے کا حل نہیں، مسلے کے مذاکرات والے حل کو ہم پہلے بھی چودہ مرتبہ استعمال کر کے دیکھ چکے ہیں اور آج تک یہ مسلہ حل نہ ہو سکا اور پتا نہیں اس بار کیا بدل گیا ہے جو یار لوگ امید لگا کر بیٹھے ہیں کے اس بار مذاکرات سے سب حل ہو جاے گا طالبان اپنی مسلح کاروایاں چھوڑ کر باچا خان اور گاندھی کی طرح امن و عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرنے لگیں گے- طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرائط بھی نہیں رکھی گئی ہیں کے وہ ہتھیار ڈال دیں گے تو اب انتظار کیجئے بہت جلد پوری قوم طالبان سے مذاکرات کی برکات سے مستفید ہونے والی ہے </span></span><br />
<div style="text-align: right;">
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کے طالبان سے مذاکرات پر سب سے زیادہ زور دینی جماعتیں دیتی ہیں یہ وہی </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">دینی جماعتیں ہیں جو سوات آپریشن سے پہلے اس بات کو ماننے کو ہی تیار نہیں تھے کے پاکستان میں طالبان کا کوئی وجود بھی ہے- اس آپریشن سے پہلے یہ ملک و قوم کو یہی کہہ کر گمراہ کرتے تھے کے پاکستان میں تو طالبان ہیں ہی نہیں طالبان تو افغانستان میں ہیں پاکستان میں تو دہشتگردی کی کاروائیاں امریکہ اور بھارت کرواتے ہیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے- پھر سوات آپریشن ہوا قوم نے دیکھا طالبان کا پاکستان میں وجود بھی تھا اور انہوں نے ہمارے فوجی بھی شہید کیے، مگر بہت سے لوگ اسکے بعد بھی بضد رہے کے نہیں پاکستان میں طالبان نہیں ہیں، تو ان سے میں یہی پوچھتا تھا کے اگر پاکستان میں طالبان نہیں ہیں تو سوات میں ہمارے فوجیوں کو کس نے مارا؟ کیا وہ ٹھنڈ لگنے سے ہی شہید ہو گئے؟ اس آپریشن کے بعد بہت سے لوگ اس بات کو تسلیم کرنے لگے کے ہاں پاکستان میں طالبان کا وجود ہے مگر پھر ایک نیا شوشہ شروع کیا گیا کے اصلی طالبان تو افغانستان میں ہیں اور تحریک طالبان پاکستان امریکی و بھارتی ایجنٹ ہیں، میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کے امریکہ و بھارت کے پاس اگر اتنے وفادار ایجنٹ ہیں کے وہ انکے حکم پر دوسرے ملکوں جا کر اپنی جان کی قربانی دے کر خودکش حملے کر سکیں تو پھر ان کو اتنی بڑی فوج، فضائیہ اور ایٹمی ہتھیار رکھنے کی کیا ضرورت یہ تو کسی بھی ملک کو صرف اپنے ایجنٹ بھیج کر ہی تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں- بالفرض ہم ان جماعتوں کی بات مان بھی لیں کے طالبان امریکی و بھارتی ایجنٹ ہیں تو اب یہی جماعتیں ان سے مذاکرات پر زور کیوں دے رہی ہیں اور ان غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;"> پاکستانی عوام کو جتنا گمراہ ان مذہبی جماعتوں اور رنگ برنگی ٹوپیوں والے دفاعی تجزیہ نگاروں نے کیا ہے اتنا گمراہ تو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے پروپگنڈا ڈیپارٹمنٹ نے جرمنی کو بھی نہیں کیا ہوگا-دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے پروپگنڈا کو با قائدہ سائنس بنا دیا تھا ہٹلر کا پورا شعبہ تھا جو اسکے وزیر اطلاعات گوبلز کی زیر نگرانی کام کرتا تھا، یہ پروپگنڈا ہی کی طاقت تھی جس کی بدولت جرمن قوم خبط عظمت میں مبتلا ہو گئی اور ہٹلر کے غلط اقدام پر کوئی اسکے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تھا پوری قوم اسکے ساتھ کھڑی تھی اور اسکے ہر غیر انسانی کام کی حمایت کی گئی- اسی طرح مذکورہ بالا لوگوں نے پاکستانی قوم کو اس بری طرح کنفیوز کیا ہے کے قوم انکی تضاد سے بھرپور باتوں پر بھی یقین کرنے پر مجبور ہے
کبھی یہ کہتے ہیں طالبان غیر ملکی ایجنٹ ہیں اور کبھی انکی دہشتگردی کے جواز پیش کرتے ہیں کے آپ نے امریکا کی مدد کی وہ ڈرون مارتا ہے تو طالبان کی دہشتگردی بھی جائز ہے کوئی ان سے پوچھے ایک جرم دوسرے جرم کا جواز کب سے ہونے لگ گیا؟</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; font-size: large;"> ایک بات جو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے وہ یہ ہے کے طالبان صرف ایک مسلح تنظیم نہیں بلکہ یہ ایک سوچ اور نظریہ ہے جیسے نازی فوج صرف ایک فوج نہیں تھی بلکہ نازی ازم ایک نظریہ تھا جو نازی فوج کے انسانیت کے خلاف جرائم کا ذمہ دار تھا- وہ نظریہ یہ کہتا تھا کے جرمن تمام اقوام سے برتر ہیں لہٰذا دنیا میں جینے اور حکومت کرنے کا حق بھی صرف انکو ہی حاصل ہے- طالبان کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے کے ان کی شریعت کی تشریح تمام قوانین سے برتر ہے اور اسکا نفاذ ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے- جو ان کی شریعت کے نفاذ کی کوشش میں رکاوٹ ڈالے گا اس کا قتل جائز ہے چاہے وہ پاک فوج ہو یا پولیس ہو یا کوئی اور ادارہ جماعت گروہ یا فرد- طالبان سے ریاست پاکستان (جس کو طالبان مرتد اور کافر ریاست مانتے ہیں) کا مذاکرات کرنا ایسا ہی ہے جیسے دوسری جنگ عظیم میں یہودی نازیوں سے مذاکرات کرنے کی کوشش کرتے، ان مذاکرات میں نازیوں کی طرف سے یہی مطالبہ کیا جاتا کے جرمنی کو یہودیوں سے پاک کرنا ضروری ہے لہٰذا یہودی اگر نازیوں کے مظالم سے بچنا چاہتے ہیں تو اجتماعی خودکشی کر لیں ورنہ ان کو قتل کرنے کا کام نازی کر دیں گے- اسی طرح طالبان کا مطالبہ بھی یہی ہوگا کے جمہوریت کفر ہے ملک میں طالبان کی مرضی کے اسلامی قوانین نافذ ہونگے پارلیمنٹ عدالتیں پولیس اور فوج استعفیٰ دے کر سب گھر چلے جائیں پاکستان پر حکومت امیر المومنین کریں گے اور ملک میں انصاف اور ملک کا دفاع امیر المومنین کی ہی ذمہ داری ہوگی لہٰذا اب پارلیمنٹ فوج اور عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں- سوات آپریشن سے پہلے جو طالبان سے معاہدہ کیا گیا تھا اس میں بھی کچھ ایسی ہی شرائط تھیں اور سوات انکے حوالے کر کے وہاں انکی مرضی کا نظام قائم کر دیا گیا تھا مگر انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور سوات نے نکل کر دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے کاروائیاں شروع کر دیں- اس بار دیکھتے ہیں کیا طے پاتا ہے مذاکرات میں اور کتنی دیر کے لئے طالبان اپنی کاروائیاں ترک کرتے ہیں، کتنی دیر کے لئے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑتے ہیں، ایک بات تو طے ہے اگر یہ مسلہ مذاکرات سے حل ہونا ہوتا تو پچھلی چودہ کوششوں میں حل ہو چکا ہوتا یا تو ریاست پاکستان طالبان کا خاتمہ کر دے گی ایک نہ ایک دن یا پھر طالبان اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے، بس دیکھنا یہ ہے کے دونوں میں سے کونسی بات پوری ہوتی ہے-</span></div>
</div>
</div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-27426694857991713322013-09-03T20:12:00.001+05:002013-10-17T00:22:43.342+05:00پابندی کلچر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; text-align: right;">
<span style="font-size: large;"> ستمبر 2001 کے بعد ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کے اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پاکستان میں ہوتا اور جہاز ٹکرائے جانے کا واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو اس سے نپٹنے کے لئے حکومت پاکستان کیا کرتی؟ بہت آسان حل تھا ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی- دیکھا جائے تو یہ لطیفہ ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے- حکومتیں ہوں یا عام شہری ہمارے پاس بیشتر مسائل کا ایک ہی مشہور زمانہ اور آزمودہ حل ہوتا ہے، مسلے کو حل کرنے کی بجاے مسلے سے متعلق چیز پر پابندی لگا دو- پرانی پاکستانی فلموں میں اکثر آپ نے دیکھا ہوگا جب ہیروئن گھر آ کر اپنے والدین سے محلے کے بدمعاشوں کی شکایت لگاتی ہے کے وہ مجھے چھیڑتے ہیں تو ہیروئن کے باپ پر جلالی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے، کل سے تیرا کالج جانا بند جس کے بعد ہیروئن اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہو کر اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے تک آنسو بہاتی- اب یہ تو خدا جانے یا پھر فلم کا سکرپٹ رائیٹر جانے کے ہیروئن کو رونا کس بات پر آتا تھا اپنی بے بسی کی وجہ سے، تعلیم کے ادھورے رہ جانے پر یا پھر اپنے باپ کی پاکستانی حکمرانوں والی سوچ پر جو مسائل کا حل "پابندی" لگانا تجویز کرتے ہیں- بھلا یہ کیا بات ہوئی کے اگر کسی لڑکی کو محلے کے بدمعاش پریشان کرتے ہیں تو بدمعاشوں کا کچھ کرنے کی بجاے سیدھا اسکے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے- فلمیں وہی لوگ لکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور فلموں میں وہ ہی کچھ دکھایا جاتا ہے جیسا کے اس معاشرے میں سوچا اور سمجھا جاتا ہے- اگر فلمیں بھارتی سٹار پلس کے ڈراموں جیسی ہوں جس میں بھارت جیسے غربت زدہ ملک میں ہر دوسری عورت کروڑوں کی شاپنگ کرتی پھرے تو ظاہر ہے ایسی فلمیں باکس آفس پر بری طرح پٹ جائیں گی-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br /></span>
<a name='more'></a><span style="font-size: large;"> پاکستانی فلموں میں دکھائی جانے والی پابندی لگانے والی سوچ ہمارے ملک اور معاشرے میں جا بجا پائی جاتی ہے اور فلم لکھاریوں کی طرح ملک کے حکمران بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجاے "پابندی" لگانے میں ڈھونڈتے ہیں- مثلاً غیر قانونی ڈور کی روک تھام نہیں ہو رہی تو کوئی بات نہیں بسنت پر پابندی لگا دو- دہشتگردی قابو نہیں آ رہی تو ڈبل سواری اور موبائل کے استعمال پر ہی پابندی لگا دو- یوٹیوب پر ایک ویڈیو کو بلاک نہیں کیا جا رہا تو یوٹیوب پر ہی پابندی لگا دو- ملک میں جب ڈینگی کی وبا پھیلنا شروع ہوئی اور مجھے پتا لگا کے یہ مچھر پانی میں پیدا ہوتا ہے تو مجھے پہلا خیال یہی آیا کے اب کہیں حکومت کو کوئی عالی دماغ مشیر ملک بھر میں پانی اور اسکے استعمال پر ہی پابندی لگانے کا مشورہ نہ دے دے- کراچی میں جب تاجروں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہونے لگیں تب بھی یہی خدشہ ہوا کے اب پتا لگے کراچی کے شہریوں کو بھتہ خوروں سے نجات دلانے کی بجاے کہیں کاغذ اور قلم پر ہی نہ پابندی لگا دی جائے کہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری، نہ ہوگا شہر میں کاغذ و قلم نہ ہونگی لوگوں کو بھتے کی پرچیاں موصول-کچھ عرصے پہلے سوئس اور فرانسیسی حکام کی طرف سے میناروں اور سکارف پر پابندی کی خبر پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یورپ کے ان ممالک کی حکومتوں میں بھی پاکستانی سیاستدان گھس گئے ہیں- کسی بھی چیز پر پابندی لگانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کے یا تو آپ اس سے خوفزدہ ہیں یا پھر آپ اتنے نا اہل ہیں کے اسکا کوئی حل پابندی کے سوا ڈھونڈ ہی نہیں سکتے- پابندی لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اگر ایسا ہوتا تو آج بھی مصر میں فرعون کی حکومت ہوتی کیونکے جب فرعون کو نجومیوں نے اطلاع دی کے بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جسکی وجہ سے اسکی سلطنت چلی جائے گی تو فرعون کو بھی کسی عالی دماغ مشیر نے مسلے کا پاکستانی حل بتایا، بنی اسرائیل کے لڑکوں کی دنیا میں آمد پر ہی پابندی لگا دی جائے- اس سے مسلہ تو حل نہ ہوا الٹا قتل و غارت کا بازار ضرور گرم ہو گیا-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
حال ہی میں تازہ ترین پابندی پی ٹی اے کی طرف سے لیٹ نائٹ کال پکیجز اور موبائل چیٹ رومز پر عائد کی گئی ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کے اس سے ہماری نوجوان نسل کی اخلاقیات پر منفی اثر پڑتا ہے- یہ کافی مضحکہ خیز بات لگتی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کمپیوٹر کی وجہ سے میری کمر میں درد ہوتا ہے لہٰذا کمپیوٹر کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے- اب انسان اسکے سوا کیا کہہ سکتا ہے کے کمر میں درد کمپیوٹر کے استعمال سے نہیں بلکہ کرسی پر گھنٹوں بیٹھنے سے ہوتا ہے- مسلے کا حل کمپیوٹر پر پابندی نہیں بلکہ کرسی پر گھنٹوں بیٹھنے سے گریز کرنے میں ہے یا پھر آپ کا کام ایسا ہے کے آپ کو گھنٹوں کرسی پر بیٹھنا پڑتا ہے تو آپ کوئی آرام دہ کرسی خرید لیں- اگر آپ کو نوجوان نسل کی اخلاقیات کی اتنی ہی پرواہ ہے تو مسلہ کا حل نوجوان نسل کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانے میں ہے نہ کے پابندیاں لگانے میں کیونکے اکیسویں صدی میں اینڈرائڈ فون استعمال کرنے والی یہ نوجوان نسل کال اور نائٹ پکیجز پر پابندی لگانے سے اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹنے والی نہیں الٹا اسکا متبادل ڈھونڈنے والی ہے- آپ نائٹ پکیجز پر پابندی لگا دیں یہ سکائپ کا استعمال شروع کر دینگے آپ سکائپ پر بھی پابندی لگا دیں یہ وائبر کا استعمال شروع کر دینگے اور اگر آپ انٹرنیٹ پر ہی پابندی لگا دیں یا پاکستانی نوجوانوں پتھر کے زمانے میں لے جا کر چھوڑ دیں تو یہ وہاں بھی کبوتر پال کر اس سے پیغام رسانی کا کام لینا شروع کر دینگے- اسی لئے میرا خیال ہے کے اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانے میں ہی انکی بھلائی ہے ایسی پابندیوں سے صرف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو یوٹیوب اور کال پکیجز کا مثبت استعمال کرتے ہیں- اب کوئی پوچھے لیٹ نائٹ کال پکیجز کا مثبت استعمال کیا ہو سکتا ہے تو انکے لئے عرض ہے بہت سے لوگ ان پکیجز کو اپنے ان عزیزوں سے بات کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے جو بیرون ملک رہتے ہیں اور بہت سے ایسے لوگ جو نائٹ ڈیوٹی کرتے ہیں انکے لئے یہ پکیجز بہت مفید تھے کیونکہ انکی بدولت بہت کم پیسے خرچ کر کے اپنے دیگر کولیگز کے ساتھ رابطے میں رہا جا سکتا ہے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
آج کل عالمی طاقتیں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بہت فکر مند ہیں اس چکر میں ایک ملک پر تو حملہ کرکے اسکا ستیاناس کر ہی دیا گیا اور دوسرے ملک پر بھی حملے کی تیاریاں جاری ہیں اور کسی بھی وقت یہ حملہ متوقع ہے- اس صورت میں ہم بھی " عالمی طاقتوں " کو مشہور زمانہ "پابندی" والا مشورہ دینا چاہیں گے کے کیوں نہ دنیا بھر میں کیمسٹری کی تعلیم اور لیباٹریوں پر پابندی لگا دی جائے- نہ لوگ کیمسٹری کی تعلیم حاصل کریں گے نہ ہی کیمسٹری کی لیباٹریوں کا رخ کریں گی اور نہ ہی دنیا میں کیمیائی ہتھیار تیار کیے جا سکیں گے- جب کیمیائی ہتھیار تیار ہی نہیں ہونگے تو انکے درست یا غلط استعمال کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب کیمیائی ہتھیار استعمال ہی نہیں ہونگے تو نہ لوگ زہریلی گیسوں سے مریں گے نہ ہی ان کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے عالمی طاقتوں کو کسی ملک پر چڑھائی کر کے مزید لوگ مارنے پڑیں گے- ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آے-</span></div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-8707296101407825602013-08-27T18:26:00.000+05:002013-10-17T00:24:11.712+05:00ہم اور ہماری سوچ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">
<span style="font-size: large;">کچھ عرصے سے ملک بھر میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے دل خراش واقعات پیش آ رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت،انتہا پسندی،عدم برداشت اور تنقیدی سوچ کا فقدان ہے- یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے میں افواہ سازی بہت آسان کام ہے اور بے بنیاد باتیں بہت جلد مشہور ہو جاتی ہیں اور نہ صرف مشہور ہو جاتی ہیں بلکہ لوگ انکو من و عن تسلیم بھی کر لیتے ہیں- پولیو ویکسین کے بارے میں بنیادی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کے یہ یہودیوں کی ایک سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے، اگر ایسا ہے تو خود یہودی اسرائیل میں اپنے بچوں کو یہی ویکسین کیوں دیتے ہیں؟</span><br />
<span style="font-size: large;"><br /></span>
<a name='more'></a><span style="font-size: large;">ہمارے ملک میں ملالہ سے لے کر پولیو ویکسین اور زمرد خان تک ہر دوسری چیز انتہائی متنازع ہو جاتی ہے یا شاید متنازع بنا دی جاتی ہے- میں نے اس پر بہت سوچ بچار کی کے ہم ایسے کیوں ہیں؟ ملک میں ہر دوسرا شخص آپ کو اپنے سازشی مفروضے نہ ماننے پر دی ارائیول نامی ڈوکیومنٹری دیکھنے کا مشورہ کیوں دیتا ہے؟ ڈینگی سے لے کر سیلاب تک ہر چیز کو سازش کیوں قرار دے دیا جاتا ہے؟ دوسرے امکانات پر غور کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب ہمارے ملک کے کرکٹر سٹے بازی کر کے ملک و قوم کو بدنام کرتے ہیں تو پورا ملک اس پر بھارتی سازش کا راگ یک زبان ہو کر الاپنے لگ جاتا ہے اور جب بعد میں وہی کرکٹر عدالت میں ثبوت سامنے آ جانے پر اپنا جرم قبول کر کے ساری تفصیلات بیان کر دیتے ہیں تو ملک و قوم کو شرمندگی کے مارے چپ لگ جاتی ہے</span></div>
<div style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">اس رویے کی بنیادی وجہ مجھے ہمارے تعلیمی نظام اور کلچر میں نظر آتی ہے- ہمارے تعلیمی نظام میں</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"> چیزیں رٹنے پر زور دیا جاتا ہے کے یہی وہ طریقہ ہے جس سے امتحان میں اچھے نمبر حاصل ہو سکیں گے تعلیم کا مقصد شعور و آگہی نہیں بلکہ امتحان میں کامیابی ہوتا ہے- ہمارے کلچر اور روایات میں بھی سوال جواب کرنے کو زبان درازی کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کے جو بڑے بتا دیں اس کو من و عن تسلیم کر لینا ہے سوال جواب کی کوئی گنجائش نہیں- بچوں کو سوچنے، غور کرنے اور عقل کے استعمال کی ترغیب نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے ہمارے معاشرے میں لوگ غور فکر کرنے کی بجاے سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلاتے ہیں کوئی اپنی عقل کا استعمال کرکے بات کی صداقت کو جانچنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ بات کی صداقت کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کے فلاں نے کہا ہے تو سچ ہی کہا ہوگا فلاں پانچ وقت کا نمازی ہے جھوٹ بول ہی نہیں سکتا- یہی وجہ ہے کے جب منبر پر بیٹھا مولوی کسی بھی چیز کے بارے میں جوش خطابت دکھاتا ہے تو عوام اس چیز کو جانے اور سمجھے بغیر مولوی صاحب کی بات کو </span><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;">فوراً</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"> تسلیم کر لیتے ہیں چاہے مولوی صاحب میڈیکل کی بنیادی باتوں کی معلومات کے بغیر یہی کیوں نہ کہہ دیں کے فلاں ویکسین فلاں کی سازش ہے نمازیوں میں اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر بھی موجود ہوگا وہ بھی اسی میں اپنی عافیت جانے گا کہ چپ </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">چاپ بیٹھا رہے اور مولوی صاحب کی تصحیح سے گریز کرے-</span></span><br />
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"> جب معاشرے کی اجتماعی صورتحال یہ ہے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہمیں یہاں</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;"> قدم قدم پر فضول اور لغو باتیں پھیلی نظر آتی ہیں مثلا بلی آگے سے گزر جائے تو راستہ بدل لو، اپنے گھر کی جھاڑو کسی کو ادھار نہیں دیتے،جمعرات کے دن علاج شروع نہیں کروایا جاتا اور منگل کے دن ناخن کاٹنے سے منع کیا جاتا ہے-بچپن میں یہ سب میں نے بھی اپنے بڑوں سے سنا تھا اور حسب عادت سوال کیا کے آخر ایسا کرنے سے کیا ہوگا اور کیوں ایسا کرنے سے منع کیا جاتا ہے؟ تو مجھے آگے سے یہ جواب ملا کے ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے اور انہوں نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا ہم کوئی تمہاری طرح بدتمیز تو تھے نہیں جو اپنے بڑوں سے سوال جواب کرتے- مگر بچپن کے یہ سوالات میرے دماغ میں ہمیشہ رہے اور ظاہر ہے جب میں نے اپنی عقل کا استعمال شروع کیا تو مجھے یہ بات آسانی سے سمجھ آ گئی کے یہ فضول باتیں ہیں سارے دن برابر ہوتے ہیں- ان باتوں میں اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں کے یہ نسل در نسل سنی سنائی باتیں ہیں جن پر نہ کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش کی اور نہ اسکی وجہ جاننے کی ضرورت محسوس کی اسی وجہ سے اکیسویں صدی میں بھی یہ ہم تک پوھنچی ہیں- </span></span><br />
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;"><br /></span>
<span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;">اب اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو بخوبی سمجھ آ جائیگا کے پاکستان میں جعلی عامل، پیر فقیر، ڈبل شاہ اور آغا وقار جیسے لوگ کیوں لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں-یہاں پر جعلی ڈگری والے چرب زبان کامیاب مذہبی شخصیات کیونکر بن جاتے ہیں اور ہروقت سازش کا راگ الاپنے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کرنے والے جن کی باتوں کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا وہ کامیاب دفاعی تجزیہ نگار کیسے بن جاتے ہیں- جس معاشرے میں ایک شخص اٹھ کر پانی سے گاڑی چلانے کا دعوا کرے اور میڈیا اسکو سنجیدگی سے لے اس پر باقاعدہ پروگرام کرے عوام ملک کے کچھ شہروں میں اسکی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور یہاں تک کے ملک کے چوٹی کے سائنسدان بھی اسکے حوالے سے دو دھڑوں میں تقسیم نظر آیں (ویسے دو دھڑے کہنا کچھ مناسب نہ ہوگا کیونکے ایک جانب اصل سائنسدان تھے اور دوسری جانب ایک ہی صاحب تھے جو ملک کے حقیقی سائنسدانوں سے بھی زیادہ مقبول ہیں) تو اس کا مطلب ہے اس معاشرے میں لوگوں کے اندر تنقیدی اور غیر جانبدارانہ سوچ کا شدید فقدان ہے اور اس معاشرے میں لوگ سوچنے سمجھنے سے اس قدر عاری ہیں کے آپ کو اپنا حریف کا کاروبار تباہ کرنے کے لئے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں صرف اسکے بارے میں افواہیں پھیلا دیں کے اسکا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے لوگ خود ہی اس سے سامان خریدنا چھوڑ دیں گے اور کوئی اس بات کی تحقیق بھی نہیں کرے گا کے ان افواہوں میں کوئی صداقت ہے بھی کے نہیں-</span></span><br />
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;"><br /></span>
<span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;"> مجھے یہ بات بھی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کے جب ہم یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں مثلا پیپسی کوکا کولا، فیس بک وغیرہ کی مصنوعات استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو ہمارے ملک کے اندر پاے جانے والے مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کی بنائی ہوئی مصنوعات استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟ دنیا بھر میں باشعور قومیں اپنی ملکی مصنوعات کو فروغ دیتی ہیں اور غیر ملکی در آمدات پر انحصار کم سے کم کرتی ہیں اس سے زر مبادلہ بچتا ہے اور ملک و قوم کا ہی فائدہ ہوتا ہے- مگر ہم وہ انوکھی قوم ہیں جو اپنے ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں صرف اس وجہ سے کے ہمارے کسی مخصوص گروہ سے مذہبی اختلافات ہیں اور ان اختلافات کے نتیجے میں </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma;">ہم اپنوں کا نقصان اور غیروں کا فائدہ کرتے ہیں-</span></span><br />
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;"><br /></span>
<span style="font-family: Jameel Noori Nastaleeq, Alvi lahori Nastaleeq, Urdu Naskh Asiatype, Georgia, Arial, Tahoma;">ہماری یہ بے سروپا سوچ ہی ہے جسکی وجہ سے آج قوم صرف ایک ہی بات پر متفق ہے کے کسی بھی بات پر اتفاق نہیں کرنا، چاہے وہ دہشتگردی ہو یا عید کا چاند پاکستانی اسوقت شاید دنیا کی واحد قوم ہے جسکا کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں ہوتا- امید ہے آپ بھی میری ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے مگر بلاگ کی یہ پوسٹ ان لوگوں کے لئے ہے جو میری طرح اس ساری صورتحال پر سر کھپاتے ہیں کے ہم جیسے ہیں ہم ویسے کیوں ہیں؟ میں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی اور جو جواب سمجھ آیا اسکو آپ کے سامنے پیش کر دیا آپ اس سے اتفاق کریں یا اختلاف آپ کی راے اور تبصروں کا انتظار رہے گا-</span></span></div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-2520892664171295107.post-78266445897066142722013-08-21T22:37:00.001+05:002013-10-17T00:25:53.129+05:00فرقہ واریت اور ہمارا معاشرہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi lahori Nastaleeq', 'Urdu Naskh Asiatype', Georgia, Arial, Tahoma; text-align: right;">
<span style="font-size: large;">فرقہ واریت ہمارے ملک کے مسائل میں سے ایک ایسا مسلہ ہے جو گزشتہ کچھ سالوں میں انتہائی شدت اختیار کر گیا ہے اور ملک کے بعض علاقوں کوئٹہ،گلگت ،پاراچنار ،کراچی اور جنوبی پنجاب کو یہ عفریت مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے چکا ہے- افسوسناک بات یہ ہے کے کراچی کے بعض علاقوں، کوئٹہ اور پاراچنار میں ہر دوسرا گھرانہ فرقہ واریت کے ہاتھوں اپنے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ضرور کھو چکا ہے اور ایسے بہت سارے خاندان ہیں جن کے یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے گھر کے تمام مرد حضرات مار دیے گئے- اس سے بھی زیادہ پریشن کن بات یہ ہے کے عوام کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہے کے اس قتل عام کے پیچھے کوئی فرقہ وارانہ محرکات ہیں زیادہ تر لوگ یا تو اسکو امریکا و دیگر بیرونی قوتوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا پھر اس پر سرے سے بات کرنے یا لکھنے سے ہی گریز کرتے ہیں- جو لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کے ہاں یہ قتل عام فرقہ وارانہ ہے وہ اسکا ذمہ دار امریکا کی افغانستان میں جنگ یا پھر خومینی انقلاب کو ٹہرا دیتے ہیں جب کے میری راے میں یہ مسلہ 1979 یا 2001 میں نہیں شروع ہوا اسکی تاریخ کافی پرانی ہے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br /></span>
<a name='more'></a><span style="font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-size: large;">تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان میں شیعہ اور سنی مسلمان مل جل کر رہا کرتے تھے اور تھوڑی بہت تحقیق کرنے پر پاکستان کے قیام سے پہلے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کے تو کافی واقعات ملے مگر شیعہ سنی کوئی تنازع نہیں ملا نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ فساد کا ذکر ملتا ہے اور میرا خیال ہے اسکی وجوہات معاشرے میں برداشت اور روا داری موجود ہونے کے علاوہ ایک اہم کردار صوفی تعلیمات اور روایات کا ہے- ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کے دونوں فریقوں کو ایک طاقتور مشترکہ مخالف ہندوں کا سامنا بھی تھا تو ایسی صورتحال میں دونوں فرقے آپس میں کسی بھی قسم کی عداوت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
قیام پاکستان کے بعد ہمیں فرقہ وارانہ قتل عام کا پہلا بڑا واقعہ 1963 میں خیر پور سندھ میں ملتا ہے جس میں 118 شیعہ قتل کر دیے گئے تھے (تفصیلات <a href="http://www.shaheedfoundation.org/tragic.asp?Id=13" target="_blank">یہاں</a> ملاحظہ کریں)- قابل غور بات یہ ہے کے یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو ایران میں خومینی انقلاب آیا تھا اور نہ ہی افغانستان میں امریکا موجود تھا یہ مسلہ موجود تو پہلے سے تھا مگر اس میں شدت اس وقت آنی شروع ہوئی جب ایران میں خومینی انقلاب آیا اور اس سے خوفزدہ ہو کر ضیاءالحق حکومت نے پاکستان میں ریاستی سطح پر ایک الگ ہی قسم کا اسلام متعارف کروانا شروع کیا اس برانڈ کے اسلام کی ترویج اور پاکستان میں ایرانی انقلاب کے اثرات کا تدارک کرنے کے لئے 1980 میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم بنائی گئی اور اسکو ریاست کی طرف سے بھرپور مدد فراہم کی گئی - اسکے بعد ہم نے دیکھا 80 کی پوری دہائی سپاہ صحابہ نے ملک کے مختلف حصوں میں شیعہ ذاکرین اور مختلف ماہرین مثلا ڈاکٹروں وکیلوں وغیرہ کو نشانہ بنایا یہ سلسلہ دس سال تک اسی طرح چلتا رہا جس کے بعد دوسری جانب سے سپاہ صحابہ کے ردعمل میں سپاہ محمد نامی تنظیم بنائی گی اور اس تنظیم کا طریقہ واردات سپاہ صحابہ سے قدرے مختلف تھا انہوں نے دوسرے فرقے کے ماہرین کو نشانہ بنانے کی بجاے کئی علماء کو نشانہ بنایا جو سپاہ صحابہ سے وابستہ تھے یا سپاہ صحابہ کی حمایت کرتے تھے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کے سپاہ محمد کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد سے یہ تنظیم فعال نہیں رہی دوسری جانب سپاہ صحابہ دو گروہوں میں بٹ گئی اور اس سے ایک اور تنظیم نکلی جو کے لشکر جھنگوی کے نام سے سرگرم ہے-رفتہ رفتہ فرقہ وارانہ قتل عام کا طریقہ زیادہ مہلک ہوتا گیا پہلے صرف گھات لگا کر یا شناخت کر کے لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کیا جاتا تھا پھر اس میں بم دھماکوں کا استعمال ہونے لگا گزشتہ دس سالوں میں خودکش حملے بھی شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو مجھے خدشہ ہے کے اگلے دس یا بیس سال میں لشکرجھنگوی کہیں ٹینکوں اور میزائلوں کا استعمال نہ شروع کر دے-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
میری راے میں ملک میں فرقہ واریت کی سیاسی وجوہات کے علاوہ کچھ معاشرتی وجوہات بھی ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کے وہ پاکستانی جو بیرون ملک پیدا ہوتے ہیں اور مغربی ممالک میں ہی تربیت پاتے ہیں ان میں سے اکثریت فرقہ واریت سے واقف نہیں ہوتی اور خود کو صرف مسلمان ہی کہلوانا پسند کرتے ہیں اور کسی بھی مسجد میں کسی بھی امام کے پیچھے نماز ادا کر لیتے ہیں ان مسائل کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے کے کس امام کے پیچھے نماز ادا کرنی ہے اور کس کے پیچھے نہیں اگر آپ کا مغربی ممالک جانے کا اتفاق نہیں ہوا تو آپ انٹرنیٹ پر ان مملک کی مساجد اور نمازیوں کی تصاویر تلاش کر سکتے ہیں ان تصاویر میں آپ کو نمازی ایک ہی مسجد میں مختلف طریقوں سے نماز ادا کرتے دکھائی دیں گے کوئی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہا ہوگا تو کوئی ہاتھ چھوڑ کر اور کسی کو بھی کسی کے طریقہ نماز پر اعتراض نہیں ہوتا ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے- اسکا کریڈٹ مغربی ممالک کی حکومتوں کو جاتا ہے جو اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اگر کوئی شخص فرقہ واریت پھلانے کی کوشش کرے دوسروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرے تو اسکو نہ صرف گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ اسکے خلاف قانونی کروائی بھی ہوتی ہے- </span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
اپنی ذاتی زندگی میں مجھے فرقہ واریت سے پہلی بار واسطہ پندرہ یا سولہ سال کی عمر میں پڑا جب میں ایک دوست کے اسرار پر گھر سے دور اس مسجد نماز پڑھنے گیا جہاں وہ نماز پڑھنے جایا کرتا تھا یہ کراچی کی بات ہے ان دونوں میں کراچی میں رہا کرتا تھا- نماز پڑھنے کے بعد پچھلی صفوں میں موجود ایک مولوی صاحب بیان دینے لگے اور میں مولوی صاحب کا بیان سننے بیٹھ گیا اتنے میں وہ دوست پچھلی صفوں کی جانب آیا اور مجھے اٹھا کر لے گیا میں اسکی اس حرکت پر کافی خفا ہوا کے یہ کیا بدتہذیبی تھی بیچ بیان میں سے اٹھ جانا تو اس دوست کی زبانی مجھے پہلی بار معلوم ہوا کے مذکورہ مولوی صاحب ہمارے فرقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے اس لئے اس دوست کے بقول ہم پر فرض تھا کے ہم انکی بات کو سنجیدگی سے نہ لیں بلخصوص جب بات دین کی ہو- میں نے کیونکے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں فرقہ واریت سے بالاتر ماحول تھا تو میں یہ بھی نہ جانتا تھا کے میں خود کس فرقے سے تعلق رکھتا ہوں مگر میں نے اس واقعے کے بعد جستجو کی تو معلوم ہوا کے ہم اہلسنت بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور جو مولوی صاحب تھے وہ دیوبندی فرقے سے تھے- یہ واقعہ اور میرے اس دوست کا رویہ میرے لئے کافی حیران کن تھا کیونکے میں ہر ایک کو ایک ہی جیسا مسلمان سمجھتا تھا تو میرے نزدیک یہ کوئی اتنا بڑا مسلہ نہ تھا- مجھے کافی جستجو ہوئی کے دوسرے مسلک کے مولوی صاحب کے افکار و نظریات کے بارے میں مزید جان سکوں کے وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمارے مسلک کے لوگ ان سے خار کھاتے تھے خیر اس وقت تو یہ نہ ہو سکا کیونکے دوست کی ناراضگی کے ڈر سے میں نے دوبارہ اس مسجد کا رخ نہ کیا اور اپنے گھر کے قریب ایک مسجد میں نماز ادا کرنے لگا-</span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کے ہمارے ملک کی اکثریت دوسرے مسالک کے لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے سے کتراتی ہے اور لوگوں کو یہ درس دیا جاتا ہے کے مذھب اور سیاست دو ایسے موضوع ہیں جن پر بات کرنے سے گریز ہی کیا جائے تو بہتر ہے- اسکا نتیجہ یہ ہوا کے لوگ اپنے فرقہ کے علاوہ دوسرے فرقوں کے بارے میں اول تو زیادہ جانتے ہی نہیں ہیں اور جو کچھ جانتے ہیں وہ دوسرے فرقوں کے مخالفین کی زبانی ہی جانتے ہیں (جو کے بیشتر منفی باتیں ہی بتاتے ہیں) لوگ اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر کریں بھی تو انکی پوری کوشش مخالف مسلک کو غلط اور خود کو صحیح ثابت کرنے کی ہوتی ہے اس تبادلہ خیال کا مقصد دوسرے فریق کا نقطۂ نظر جاننا اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنا نہیں ہوتا اور یہ ہی وہ رویہ ہے جو عدم برداشت کی بنیاد ڈالتا ہے اور آگے چل کر اسی رویے کی وجہ سے فرقہ وارانہ اختلاف فساد اور مذہبی انتہاء پسندی کی شکل اختیار کر جاتا ہے- </span><br />
<span style="font-size: large;"><br />
اگر ہم نے اس مسلے پر قابو پانا ہے تو انتہاء پسند تنظیموں کے خاتمے کے علاوہ اپنے عمومی رویے بھی تبدیل کرنے ہونگے- مغربی ممالک کی طرح اشتعال انگیزی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا ایسے تمام مولویوں کے خلاف قانونی کروائی کرنی پڑے گی جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں- ملک سے نفرت انگیز لٹریچر کو ختم کرنا ہوگا اور مکالمے کو فروغ دینا ہوگا اسکول کی سطح پر بچوں کو اس بات کی تعلیم دینی پڑے گی کے تمام مذاھب و مسالک قابل احترام ہیں- اپنی آئندہ نسلوں میں وہ سوچ پروان چڑھانی ہوگی جو خود کو صحیح اور دوسرں کو غلط نہ سمجھے بلکے یہ کام خدا پر چھوڑ دے- اسکے علاوہ ترکی و دبئی کی طرح مساجد و مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لانا ہوگا ترکی اور دبئی میں مساجد اور مدارس کی کفالت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے اور حکومت کی مساجد کے معاملات پر کڑی نظر ہوتی ہے یہاں تک کے جمعہ کے خطبے کے لئے امام مسجد کو موضوع بھی حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے کوئی امام اپنی جانب سے کوئی متنازع موضوع پر خطبہ نہیں دے سکتا- وہاں پر مسجد یا مدرسے کی توسیع کے لئے مسجد انتظامیہ کو چندہ لینے کی اجازت نہیں یہ کام حکومت کرتی ہے مگر چونکہ مساجد قائم کرنا اور انکی دیکھ بھال کرنا ہمارے یہاں انتہائی نیک کام سمجھا جا سکتا ہے تو ہم یہ کر سکتے ہیں کے جو لوگ مساجد و مدارس کو چندہ دینا چاہیں وہ براہ راست چندے دینے کی بجاے اپنے عطیات حکومت کو دے سکتے ہیں- جب یہ چندے والا نظام حکومت کو دے دیا جائیگا تو مدارس کا ان چندوں سے جہادکے نام پر دہشتگردی کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی کا سوال بھی ختم ہو جاے گا اگر اس مسلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا بروقت اور درست اقدامات نہ کیے گئے تو یہ سنگین صورت بھی اختیار کر سکتا ہے اور ملک کو فرقہ وارانہ قتل عام سے ایک قدم آگے خانہ جنگی کی لپیٹ میں بھی لے جا سکتا ہے- </span></div>
</div>
Unknownhttps://www.blogger.com/profile/06124374990101012157noreply@blogger.com1